ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کوئی نامحرم تھوڑا ہی ہوں ۔ نہ اس سے قلب پربار ہوتا ہے ۔ بار تو نگررانی سے ہوتا ہے کیونکہ جب یہ معلوم ہو کہ ایک شخص برابر ہماری ہر نقل وحرکت کو دیکھ رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے ضرور قلب پربار ہوگا اور توجہ بٹے گی آزادی رہے گی ۔ یہ تو ایسی حالت میں کوئی کام کر ہی نہیں سکتا ۔ عموما مشائخ تو اس سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ یہ شخص بڑا معتقد ہے ہم کو ہر وقت تکتا ہی رہتا ہے ۔ حالانکہ اگر کسی کو ذرا بھی حس ہوتو یہ بڑی تکلیف کی بات ہے ۔ درویشی کے معنی لوگ بے حس سمجھ رہے ہیں انہیں یہ خبر نہیں نہیں کہ درویشوں میں تو اوروں سے بھی زیادہ اور ایک بڑھ جاتا ہے کیونکہ ادار اک نور ہے اور درویش جو کم وبیش ذکر کرتے ہیں اس سے ان کی روح کے اندر نورانیت بڑھتی ہے حتی کہ ان میں حسن پسندی کا اور اک بھی بڑھ جاتا ہے اسی واسطے میں کہا کرتا ہوں کہ اتقیاء سے زیادہ احتیاط رکھنی چاہیئے کیونکہ اول تو تقوی سے ادراک بڑھ جاتا ہے دوسرے یہ بات بھی ہے کہ جولوگ آزاد ہیں ان کی ہوسیں تو نکلتی رہتی ہیں کچھ آنکھوں کے رستہ سے کچھ کانوں کے راستہ سے کچھ فکر کے راستہ سے اور جو متقی ہیں وہ چونکہ عفیف ہوتے ہیں اس لئے ان کی سب قوتیں مجتمع رہتی ہیں ۔ مزید براں ذکر سے بھی جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا لطائف روح کی بڑھ جاتی ہے اس لئے ان کا ہیجان بڑھ جاتا ہے لطائف بڑھ جانے پر یاد آیا ۔ حضرت حاجی صاحب کے زمانہ میں تھانہ بھون کے ایک بڑے رئیس قاضی نجابت علی خاں جو اودھ کے سے تو بڑے رئیس نہیں تھے لیکن اکیس بائیس گاؤں کے مالک تھے ۔ جب باہر کے لوگ یہاں آکر حضرت حاجی صاحب کو بھی دیکھتے اور ان کو بھی دیکھتے تو چونکہ حضرت حاجی صاحب بوجہ لطائف کے ان سے زیادہ صاف ستھرے رہتے تھے ۔ وہ لوگ قاضی نجابت علی خاں کا حضرت حاجی صاحب سے مقابلہ کرکے کہتے کہ ارے بس ان کا نام ہی ہے رئیس تو حضرت حاجی صاحب ہیں ۔ حضرت حاجی صاحب کے یہاں غلو اور تکلف تو نہیں تھا لیکن بہت صاف ستھرے طریقہ پر رہتے تھے ۔ فرش نہایت صاف ہرچیز نہایت موقع سے رکھی ہوئی گھڑی بھی وقت پہچاننے کے لئے اس موقع پر رکھی ہوئی سادہ لباس لیکن بہت صاف ستھرا تو باہر کے لوگ حضرت حاجی صاحب کی اس حالت سے قاضی نجابت علی خاں کی حالت کا موازانہ کرکے کہتے کہ ان کا تو بس نام ہی نام ہے ۔ رئیس تو حضرت حاجی صاحب ہیں ۔ بات وہی ہے کہ درویشوں میں ذکر وتقوی کی وجہ سے لطائف بڑھ جاتی ہے ۔ جب