ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
تھیں انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ مجھے نیند نہیں آتی ساری رات پریشان رہتی ہوں ۔ اس وقت میری طبیعت کا رنگ اور تھا ایسی تدبیرات کی بھی تعلیم کردیتا تھا ۔ میں نے ان کے لئے یہ شغل تجویز کیا کہ جب رات کو سونے کے لے پلنگ پر لیٹا کرو چھت کی کڑی کی طرف دیکھا کرو ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہنے لگے کہ اس تدبیر سے نیند آگئی ۔ وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے کڑی کی طرف مسلسل دیکھنا شروع کیا تو اس سے خیال میں یکسوئی پیدا ہوئی جس سے دماغ کو سکون ہوا اور ایسی غرق نیند آئی کہ انہیں چین آگیا ۔ غرض اشغال سے مقصود یکسوئی ہے ۔ تصور شیخ بھی اسی کلی کی ایک جزئی ہے اسی طرح عشق مجازی کے متعلق جو یہ شعر ہے عتاب از عشق رو گرچہ مجازیست کہ آن بہر حقیقت کار سازیست اس سے بھی مقصود یہی یکسوئی ہے اور عشق مجازی کے یہ معنی نہیں کہ ناجائز عشق ہو ۔ اگر کسی کو اپنے لڑکے سے یا اپنی بیوی سے عشق ہو اور تصور سے اس کو یکسوئی ہوتی ہو تو وہ بھی اس میں داخل ہے بس یہ حقیقت ہے شغل کی ۔ خلاصہ یہ کہ شغل کوئی عبادت نہیں ہوتی البتہ وہ ذریعہ ہوجاتا ہے عبادت میں یکسوئی وحضور قلب کا ۔ میں نے اشغال کا ماخزہ بھی تلاش کرلیا ہے ۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ بزرگوں کے اقوال کا ماخذہ بھی مجھے مل گیا اور وہ ماخذ ایک حدیث ہے ۔ حالانکہ اس حدیث میں بالتصریح کی شغل کی تعلیم نہیں ہے لیکن اس سے بناء پر قول علماء کی تائید ہوتی ہے ۔ مسلم میں یہ حدیث موجود ہے کہ نماز میں سجدہ کی جگہ دیکھو ۔ شراح حدیث نے ( یعنی صوفیہ نے نہیں بلکہ علماء ظاہر نے ) اس کی مصلحت یہ لکھی ہے لانھ اجمع للخاطر اور یہ مصلحت اشغال میں ہے ۔ یہ حقیقت اور دوسرا ماخذہ سترہ ہے مشہور اس کی مصلحت یہ ہے کہ دوسرا دیکھ کر قریب سے نہ گزرے اسی لئے محقق علماء خط کو کافی نہیں سمجھتے مگر ابوداؤد کی حدیث صریح ہے فیخط خطا ۔ اس لئے بعض ائمہ اس کے قائل ہیں اور مصلحت اس کی یہ لکھتے ہیں کہ خود مصلی کے لئے اجمع للخاطر ہے چنانچہ ہمارے بعضے علماء محققین بھی اس کے قائل ہوگئے ہیں ۔ غرض کہ سترہ کی دو غرض ہیں ایک مرور والے کی طرف راجع ہے اور ایک خود نماز پڑھنے والے کی طرف مرور والے کے متعلق تو وہی ہے کہ وہ قریب سے یعنی سترہ کے اندر سے نہ گزرے اور دوسری غرض سترہ کی جمع