ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
کو خواب میں دیکھا کہ میں مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے بخاری شریف کا درس دے رہا ہوں بخاری کا نسخہ ایک مولانا کے سامنے ہے ایک میرے سامنے ہے اور مولانانے رومال بچھا رکھا ہے اور کنگھا کر رہے ہیں ۔ درس کے وقت بھی مولانا کا یہی معمول تھا کہ کنگھا فرماتے رہتے تھے اور سامنے رومال بچھا لیتے تھے تاکہ جو بال گریں رومال پر گریں فرماتے تھے کہ کنگھے سے سر کے مسامات کھل جاتے ہیں اور دماغ کے بخارات نکل جاتے ہیں ۔ غرض میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بخاری شریف پڑھا رہا ہوں اور میری تقریر مولانا فرماتے جاتے ہیں کہ ٹھیک ہے پھر تومیرے دل میں اتنی قوت ہوگئی کہ چاہے مجتہد کا دادا بھی آجائے میں اس پر غالب آجاؤں گا ۔ حضرت اس خواب کی ایسی برکت ہوئی کہ اس شیعی مجتہد کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ وہ مناظرہ کےلئے میرے پاس آتا ہاں چند روز بعد آیا تو نیاز مندانہ اور معتقدانہ آیا بس کانپور میں بڑے بڑے رئیس شیعی سنی سب کے قلب میں خدا تعالٰی نے ایسی بات ڈال دی تھی کہ سب نیاز مندانہ اور معتقدانہ آتے تھے یہ سب بزرگوں کی برکت تھی ورنہ لیاقت جس کا نام ہے اس وقت تو کیا اتنی عمر گزر گئی اب تک بھی حاصل نہیں ہوئی ۔ اللہ تعالٰی نے اس وقت بھی پردہ پوشی فرمائی اور اب آسان عذر ہے کہ بڑھاپے سے مجھے قوت نہیں دوسری جگہ سے دریافت کرلو ۔ تو حضرت وہ زمانہ تو ایسا تھا ۔ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی فرماتے تھے کہ میں بار ہا گنگوہ حاضر ہوا اور جی میں آیا کہ حضرت مولانا سے عرض کروں کہ مجھے بھی حدیث کی سند دے دیجئے لیکن کبھی اس درخواست کی ہمت ہی نہ پڑی ۔ جب اس نیت سے گیا تو یہی خیال ہوا کہ تو یہ تمنا لے کے توجاتا ہے ۔ لیکن تجھے کچھ آتا جاتا بھی ہے ۔ بارہا خیال ہوا کہ عرض کروں کہ سب کو حضرت سند دیتے ہیں مجھے بھی سند دیے دیجئے مگر پھر خیال ہوا کہ اگر مولانا پوچھ بیٹھیں کہ تجھے کچھ آتا بھی ہے تو سند لیتا ہے تو ایک جواب دوں گا اس لئے کبھی اس درخواست کی ہمت ہی نہیں ہوئی حالانکہ حضرت مولانا دیوبندی ہندوستان میں حدیث کے اندر بے نظیر تھے ۔ تو جناب ہم نے تو وقت دیکھا ہے اب یہ ہے کہ درخواستیں کرتے ہیں کہ ہمیں سند دے دو ۔ جس نے وہ زمانہ دیکھا ہو اس کو بھلا ایسی باتوں کا کیوں کر تحمل ہو ۔ شمرو ایک فرانسیسی تھا اس کی ایک بیگم تھی جس کا امرء میں بڑا درجہ تھا یہاں تک کہ اس کے پاس مثل والیاں ملک کے فوج