ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
دیجئے میں آج ننگے پیر ہی چلوں گا کیونکہ صحابہ بھی تو کبھی کبھی برہنہ یا چلتے تھے تو میں آج صحابہ کی ہی سنت پر عمل کروں گا اور یہ کہہ کر میں ننگے پیر ہی چل دیا اب وہ مجبور ہوئے اور دوڑے کہ لیجئے صاحب لیجئے تو جب ایک اجبنی شخص سے خدمت لینے میں اتنی گرانی ہوتی ہے اور شرم آتی ہے تو مرید جب دیکھے گا کہ میرا شیخ میرے جوتے اٹھا رہا ہے تو اس کو تو کیوں نہ شرم آئے گی اور اگر ایسے موقع پر بھی مرید کو گرانی نہ ہو تو وہ مرید ہی نہیں البتہ ایک تو ضرورت کا موقعہ ہوتا ہے وہ مستثنٰی ہے مثلا مرید کسی سواری میں چلا جارہا ہے اور جوتہ اس سواری سے نکل کر راستہ میں نکل پڑا اور شیخ کی نظر پڑجائے تو وہ اس کو اٹھاکر اس مرید کو دے دے تو اس کا نام تو ہمدردی ہے اور جہاں کوئی ضرورت نہ ہو وہاں تو ایسا برتاؤ کرنا بجائے اصلاح کے اس مرید کا ستیاناس کرنا ہے اس کے بعد حضرت والا نے ایک قصہ بیان فرمایا کہ قصبہ کیرانہ میں ایک حکیم صاحب تھے اور واقعی وہ اپنے فن میں کامل تھے مگر باوجود اس فضل وکمال کے فیس ان کی صرف آٹھ آنے ہی تھی بہت ہی شفیق وہمدردی تھے اور گھر کے زمیندار تھے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص کسی گاؤں سے آیا اور حکیم صاحب صاحب کے لئے گھوڑا لایا کہ ایک مریض ہے اس کو چل کر دیکھ لیئے حکیم صاحب نے کہا کہ بھائی یہ وقت تو مطلب کا ہے سوتو اپنا کیوں حرج کرتا ہے تو چلا جا اور گھوڑا چھوڑ جامیں مطب کے بعد آجاؤں گا ۔ وہ شخص چلاگیا جب حکیم صاحب مطب سے فارغ ہوئے تو اس گھوڑے پر سوار ہوکر روانہ ہوئے راستہ میں گھوڑے نے جو شرارت کی تو اس کی زین کا تنگ ٹوٹ گیا اور حکیم صاحب مع چارجامہ کے گھوڑے سے نیچے گر پڑے اور گھوڑا بھاگ گیا اب حکیم صاحب بے چارے حیران کھڑے تھے آخر کار حکیم صاحب کو اس حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ اجی حکیم جی یہ کیا کہنے لگے کہ بھائی گھوڑا تو پھر بھی آجائے گا مگر یہ چار جامہ تو اپنے پاؤں نہیں آسکتا تھا کوئی اٹھا کر لے جاتا اس لئے میں لے آیا تو اب مثلا حکیم صاحب کا جو یہ فعل تھا کہ چار جامہ خود اٹھا کر لے گئے یہ بھی ایک کھلی ہوئی تواضع تھی جس کا مضائقہ نہیں بخلاف اس کے کہ بلا ضرورت مرید کا جوتا اٹھا اٹھا کر رکھنا کہ یہ محض تکلف اور اس مرید کے لئے مضر ہے خلاصہ یہ ہے کہ جہاں کوئی ضرورت ہو وہاں تو ایسے امور اپنے مرید کے ساتھ ہمدردیمیں داخل ہیں اور اگر بلا ضرورت ہوتو محض تصف