ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
پہنچیں جہاں وہ لڑکا پانی میں گرا تھا - اور جاکر بیٹے کا نام لیا کہ اے فلانے اس نے کہا یوں اماں اور اپنی سے زندہ نکل کر چلا آیا - ان بزرگ کو اپنی مریدنی کا یہ واقعہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا اور اس کا راز نہ معلوم ہوا اس وقت ایک اور بزرگ تھے انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عورت کا ایک خاص ایسا مقام اور درجہ ہے کہ اس پر جو مصیبت آنے والی ہوتی ہے تو پہلے اس کو خبر کردی جاتی ہے اس کے بعد یہ واقعہ پیش اتا ہے تو چونکہ اس وقعہ کی س کو پہلے سے اطلاع نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ سمجھ گئی کہ یہ واقعہ غلط ہے اور میرا بیٹا زندہ ہے چنانچہ جب وہاں پنچی تو حق تعالیٰ نے اس کے گمان کو سچا کر دکھایا - اسی طرح بعض بزرگوں کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ہوتا ہے جب کوئی شخص ان کو تکلیف پہنچاتا ہے تو اس ستانے والے کو دیا ہی میں سزا دے دی جاتی ہے جیسا کہ عارف شیرازی فرماتے ہیں - بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات بادرد کشا ں ہر کہ در افتاد بر افتاد حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ بھی ایسے ہی بزرگوں میں سے تھے - چنانچہ آپ عم لوگوں سے بہت کم ملتے تھے لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی ہے تو آپ نے فرمایا میرا مزاج نازک ہے اور عام لوگوں میں سیلقہ کم ہے ان کی بد سلیفگی سے مجھ کو اذیت ہوتی ہے اور اس اذیت کا ان سے غیب سے انتقام لیا جاتا ہے تو میں بارگاہ حق میں دعا بھی کہ بار الہا میری وجہ سے کسی کو سزا نہ دی جاوے مگر یہ دعا مقبول نہیں ہوئی س لئے میں نے آنے جانے والوں سے ملنا جلنا کم کردیا کہ نہ میں کسی سے ملوں گا نہ کسی کی بدتمیزی کی وجہ سے مجھ کو تکلیف پہنچے گی نہ اس تکلیف دہی کی وجہ سے اس کو سزا دی جائے گی سو بعض بزرگوں کے ساتھ تو یہ معاملہ ہوتا ہے اور بعض بزرگوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے چاہے کوئی ان کو کتنی ہی تکلیف پہچائے تو اس ستانے والے کو گو آخرت میں کسی درجہ کی سزا دی جاوے مگر دنیا میں اس ستانے والے کا کچھ بھی نہیں بگڑتا - غرضیکہ ہر بزرگ کی شان جدا ہوتی ہے اور ہر بزرگ کو حق تعالیٰ کی درگاہ سے ایک خاص امتیاز حاصل ہوتا ہے اسی اصل سے حضرت شیخ عبد القدوس رحمتہ اللہ علیہ کے ایک واقعہ کا حل ہوتا ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک بار ان کے ایک خادم نے جو ایک امیر کبیر آدمی تھا اپنے بیٹے کے ولیمہ میں شہر کے امراء و غرباء کی دعوت کی اور ان کو کھانا کھلایا تو حضرت