ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
بگفتا مبر نام من پیش دوست کہ حیف است نام من آنجا کہ اوست اس طرح جن بزرگوں کو فنا کا یہ درجہ حاصل ہے ان کی وہ شان ہوتی ہے جیسے ہمارے حضرت حاجی صاحب نے فرمایا جب کوئ شخص حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کرتا کہ حضرت کوئی ایسا وظیفہ بتلا دیجئے کہ جس سے جناب رسول مقبول اللہ ولیہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہو جائے تو حضرت حاجی صاحب ارشاد فرماتے کہ بھائی تمہارا بڑا حوصلہ ہے جو تم ایسی بات کہتے ہو باقی ہم تو اپنے لئے اس کو بھی بڑی نعمت سمجھتے ہیں کہ گنبد خضراء کی ہی زیارت ہو جائے اور اس قابل تو ہم کہاں ہیں کہ ہم کو زیارت نصیب ہو تو ہمارے حضرت حاجی صاحب کا یہی مذاق تھا کہ اپنے آپ کو زیارت نصیب ہو سکنے کے قابل ہی نہ سمجھا جائے اور یہ درجہ سب سے بڑا ہے کیونکہ یہ درجہ فنا کا ہے اور عشق میں سب سے بڑی چیز فنا ہے تو یہ درجہ فنا کا ہے کہ بندہ سمجھنے لگے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے قابل ہی کب ہیں بلکہ عشاق تو اپنے محبوب کے ہوتے ہوئے اپنے وجود اور اپنی ہستی کو بھی خلاف ادب سمجھتے ہیں اور محبوب کو مخاطب کر کے اس کی تمنا کرتے ہیں کہ باوجودت زمن آواز نیاید کہ منم چنانچہ مثنوی میں مولانا رومی نے ایک عاشق کا قصہ لکھا ہے کہ ایک بار بڑی آرزؤں کے بعد جب اسکو اپنے محبوب سے وصال نصیب ہوا و اس نے اپنے محبوب کے سامنے اپنے عشقانہ سوز و گداز کا اظہار شروع کیا کہ میں تیرے عشق میں یوں جلتا رہا اور تیرے فراق میں یوں پگھلتا رہا اور مجھ کو تیری اتنی محبت ہے تو اس کے محبوب نے کہا کہ یہ سب کچھ سہی مگر ابھی اتنی کسر باقی ہے کہ تم بول رہے ہو جو دلیل ہے اس کی کہ تمہارا وجود ابھی معدوم نہیں ہوا بلکہ موجود ہے اور تمہاری ہستی ابھی مٹی نہیں بلکہ باقی ہے ارے تجھ کو تو چاہیے تھا کہ اپنی ہستی کو بالکل مٹا دیتا کہ اس کا نام و نشان نہ رہتا اس وقت میں سمجھتا کہ تو اپنے دعوی محبت سے سچا ہے ـ لہٰذا اگر ہم بھی اپنی محبت کامل کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو چاہیے کہ اپنی خواہش کو اپنے محبوب کی مرضیات میں فنا کر دیں جو ان کا حکم ہوا اس پر راضی رہیں ـ اگر خواب میں زیارت ہو جائے تو ہزارہا شکر ادا کریں اور ساری عمر بھی اگر زیارت نہ ہو تو شکایت نہ کریں بس اپنا یہ مذاق دکھیں ـ فراق وصل چہ رضائے دوست طلب