دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
صاحبؒ کو پیسوں کی بھی ضرورت تھی اس کے باوجود تیس ہزار روپیہ کا آیا ہوا چیک یہ کہہ کر واپس کردیا کہ خود وقت فارغ کرکے آؤ اور کام کرنے کا طریقہ سیکھو۔ یہ ہے انداز تربیت، حضرت اقدسؒ ان حضرات کے حالات اور طبیعتوں سے واقف ہوں گے یا اللہ تعالیٰ نے حضرت کے قلب میں اس کا القاء فرمایا کہ یہ کام کے لوگ ہیں ، ان کا پیسہ واپس کرکے اس طرح ان کو عملی طور پرکام سے جوڑا جائے، اور ان کو کام کرنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ حضرتؒ کے اس طرز عمل سے اس بات کا بھی سبق ملتا ہے کہ روساء اور اغنیاء صرف پیسہ دینے کو کافی نہ سمجھیں بلکہ عملی طور پر بھی اس کام میں شریک ہوں اور خودبھی اس کام کو انجام دیں ۔سوال کرنے والوں کے ساتھ مخلصین کو کیا معاملہ کرنا چاہئے فرمایا:’’اِنَّ لِلسَّائِلِ عَلَیْکَ حَقّاً وَاِنْ جَائَ عَلٰی فَرَسٍ۔‘‘کا مطلب سمجھنے میں عام طور پرایک مغالطہ ہوتا ہے،سمجھا جاتا ہے کہ سائل خواہ کیسا ہی اور کسی حال کا ہو اس کو اس کا مسئول (یعنی جو وہ مانگے دینا ہی چاہئے) حالانکہ یہ غلط ہے، بلکہ حدیث کا مفاد صرف یہ ہے کہ اس کا تم پر حق ہے کہ اس کے ساتھ مناسب اور خیرخواہانہ وہمدردانہ معاملہ کرو،تکبراور تحقیر کے ساتھ پیش نہ آؤ(أمَّا السَّائِلَ فَلَاتَنْھَر)(ترجمہ:سوال کرنے والے کو جھڑکو نہیں )۔ اب یہ خیر خواہی کبھی اس طرح ہوگی کہ اس کی مانگ پوری کردی جائے اور کبھی خیر اندیشی وہمدردی کا تقاضہ یہ ہوگا کہ اس کو سوال کی ذلت سے بچنے کی نصیحت کی جائے اور معیشت کی کسی مناسب تدبیر کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے اور اس میں حسب موقع اس کو سہولت پہنچائی جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض