دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
علم وذکر کا خصوصی اہتمام کیجئے ورنہ گمراہی اورفتنہ کا بڑا خطرہ ہے ایک دن بعد نماز فجرجب کہ اس تحریک میں عملی حصہ لینے والوں کا نظام الدین کی مسجد میں بڑا مجمع تھا اور حضرت مولانا کی طبیعت اس قدر کمزور تھی کہ بستر پر لیٹے لیٹے بھی دوچارلفظ بآواز بلند نہیں فرماسکتے تھے تو اہتمام سے ایک خاص خادم کو طلب فرمایا اور اس کے واسطے سے اس پوری جماعت کوکہلوایا کہ آپ لوگوں کی یہ ساری چلت پھرت اور ساری جدوجہد بے کار ہوگی اگر اس کے ساتھ علم دین اور ذکر اللہ کا پورا اہتمام آپ نے نہیں کیا( گویا یہ علم وذکر دو بازو ہیں جن کے بغیر اس فضا میں پرواز نہیں کی جاسکتی) بلکہ سخت خطرہ اور قوی اندیشہ ہے کہ اگر ان دو چیزوں کی طرف سے تغافل برتا گیا تو یہ جدوجہد مبادا فتنہ اور ضلالت کا ایک نیا دروازہ نہ بن جائے، دین کا اگر علم ہی نہ ہوتو اسلام وایمان محض رسمی اور اسمی ہیں ، اور اللہ کے ذکر کے بغیر اگر علم ہو بھی تو وہ سراسر ظلمت ہے اور علیٰ ہذا اگر علم دین کے بغیر ذکر اللہ کی کثرت بھی ہوتو اس میں بھی بڑا خطرہ ہے، الغرض علم میں نور ذکر سے آتا ہے اور بغیر علم دین کے ذکر کے حقیقی برکات و ثمرات حاصل نہیں ہوتے، بلکہ بسا اوقات ایسے جاہل صوفیوں کو شیطان اپنا آلۂ کار بنا لیتا ہے،لہٰذا علم اور ذکر کی اہمیت کو اس سلسلہ میں کبھی فراموش نہ کیا جائے اور اس کا ہمیشہ خاص اہتمام رکھا جائے، ورنہ آپ کی یہ تبلیغی تحریک بھی بس ایک آوارہ گردی ہوکر رہ جائے گی، اور خدانکردہ آپ لوگ سخت خسارہ میں رہیں گے۔ (حضرت مولاناکا مطلب اس ہدایت سے یہ تھا کہ اس راہ میں کام کرنے والے تبلیغ ودعوت کے سلسلہ کی محنت ومشقت، سفر وہجرت اور ایثار وقربانی ہی کو اصل کام نہ سمجھیں ، جیسا کہ آج کل کی عام ہوا ہے، بلکہ دین کے تعلیم وتعلم اور ذکر اللہ کی