دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
دعوت وتبلیغ کا اہم ادب فرمایا:اخلاق سے اور عبودیت سے تبلیغ کرو، حکومت کے طور سے مت کہو، بلکہ مشورہ کے طور سے کہا کرو،دین کے پھیلانے کے لئے ترک وطن سنت طریقہ ہے۔ (ارشادات ومکتوبات حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒص۴۴) فائدہ:حضرتؒ کے فرمان کا مطلب بالکل واضح ہے کہ دین کی کسی بات کی بھی ہم دوسرے کو تبلیغ کریں خواہ وہ ہم سے چھوٹا اور کم درجہ ہی کا کیوں نہ ہو، اور ہم کتنے ہی بڑے اورعہدہ والے ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن دعوت وتبلیغ کا ادب یہی ہے کہ ہم کو حسن اخلاق سے، نرمی سے، تواضع سے حق بات کہنی اور پہچانی چاہئے، حاکمانہ انداز سے بچتے ہوئے مشورہ اور خیر خواہی کے انداز سے بات کہنی چاہئے، روک ٹوک بھی اسی انداز سے یعنی نرمی ولطف کے ساتھ کرنی چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہی ادب سکھلایا تھا:بَشِّرُوا وَلَاتُنَفِّرُوا، یَسِّرُوا وَلَاتُعَسِّرُوا انمابعثتم میسّرین لامعسّرین۔(ابودائود) ترجمہ: خوشخبری سنائو، نفرت مت دلائو،دین کو آسان کرکے پیش کرو،مشکل اور دشواربناکر مت پیش کرو، بے شک تم آسانی کے لئے بھیجے گئے ہو، تنگی میں ڈالنے کے لئے نہیں ۔ اخیر میں حضرتؒ نے فرمایا کہ دعوت وتبلیغ کے لئے اپنے وطن کو چھوڑنا نبیوں کی سنت ہے،لہٰذا ہم کو بھی اس کام کے لئے ترک وطن کی ہمت کرنا چاہئے۔ فائدہ:استاد شاگرد کو، باپ بیٹے کو یعنی جن کی حیثیت مربی ونگراں اور حاکم کی ہے وہ حسب موقع چندبار نرمی سے کہنے کے بعدنہ ماننے کی صورت میں سختی سے کہنے اور تنبیہ کرنے کے بھی مکلف ہیں ۔