دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
اپنے خود ساختہ نظریوں ) کو اس حاملِ قرآن وسنت امت محمدیہ کا اختیار کرلینا اور اس کو صحیح طریقہ کار سمجھنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا فعل قبیح اور کس قدر موجب غضب ہوگا؟ اور عقلاً بھی یہ بات کتنی غلط ہے کہ محمدی وحی کے محفوظ ہوتے ہوئے (جس میں زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی شعبوں کے متعلق کامل ہدایات موجود ہیں ) عیسائی قوموں کے طور طریقوں کی پیروی کی جائے، کیا یہ علوم محمدی کی سخت ناقدری نہیں ہے؟ (ملفوظات حضرت مولانامحمدالیاس صاحبؒص۱۰۳ملفوظ:۱۲۴)یہ صورتِ حال خطرہ سے خالی نہیں فرمایا:عمل بلاصحبت اور صحبت بلا عمل خطرہ سے خالی نہیں ۔ (ارشادات ومکتوبات حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ ص۳۲) فائدہ:علماء محققین نے تصریح فرمائی ہے کہ علم وعمل کے بعد اگر کسی کامل اور صالح کی صحبت نصیب نہیں ہوئی تو اس میں طرح طرح کے خطرات ہوتے ہیں ، بسااوقات آدمی خود اپنے کو کامل سمجھنے لگتا ہے، تکبر وتعلّی کا شکار ہوجاتا ہے، دوسروں کی حقارت دل میں آجاتی ہے، جب اپنے بڑوں کے پاس جاتا رہتا ہے ان کی صحبت میں وقت گذارتا ہے تو ان کو دیکھ کر خود اپنے کو کمتر اور حقیر سمجھتا ہے، اس طرح اس کے اندر تواضع کی شان پیدا ہوجاتی ہے، دوسرے صحبت صالح یعنی کامل کی تھوڑی دیر کی نیک صحبت میں اللہ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ آدمی بدعمل توہوسکتا ہے، لیکن مرتد ومردود ہونے سے اللہ حفاظت فرماتا ہے، نیک صحبت کے نتیجہ میں اس کے باطن میں ایسی قوت اللہ تعالیٰ پیدا فرمادیتا ہے جو اس کو مرتد اور مردود ہونے سے بچالیتی ہے، شیطان لعین باوجودیکہ علم وعمل میں بہت آگے تھا لیکن نیک صحبت جو ہونی چاہئے اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مردود ہوگیا، اسی لئے قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے :یَا أیُّھَا