دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
تو اب مالداروں پرلازم ہے کہ سوال کرنے والوں کو جب کہ ان کی صداقت کا اطمینان ہودیا کریں ، اور جو سوال کرنے سے پرہیز کرتے ہیں بظاہر ان کی حالت اچھی معلوم ہوتی ہے ان کے استغناء اور ظاہر ی حالت کو دیکھ کر لوگ ان کو مالدار سمجھتے ہیں ، ایسے لوگوں کا تفقد یعنی کسی بہانہ سے ان کے حالات معلوم کرکے ان پر ازخود خرچ کریں ، تحقیق کرنے سے اور قرائن کے ذریعہ حالات معلوم ہوسکتے ہیں ،بلا تفقد اور بلا تحقیق مال خرچ کروگے،یا جو تمہاری ہاں میں ہاں ملائے،چاپلوسی کرے اس پر خرچ کروگے تو اس میں اپنا جی خوش کرنا اورخواہش پر عمل کرنا تو ہوگا، اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا نہ ہوگا، اس لئے مالداروں پر لازم ہے کہ اوپرذکر کئے ہوئے شرعی ضابطہ کے مطابق ہی خرچ کیاکریں ۔ آج کل لوگ دونوں قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہیں ، اگر کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت کا اظہار کرے تو اس سے بدگمان ہوتے یا لالچی سمجھتے ہیں ، اور جو اظہار نہیں کرتے ان کو مستغنی سمجھتے ہیں اس لئے ان پر خرچ نہیں کرتے، بس اپنی منمانی کرتے ہیں ، حضرت مولاناؒ اسی غلطی سے لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں ۔صرف پیسہ دینا کافی نہیں عملی طور پر بھی کام میں حصہ لیجئے ایک جگہ سے تیس ہزار کا چیک آیا جو واپس کردیا گیا کہ ہم تمہارے بنک نہیں ہیں ، وقت فارغ کرکے آؤ، اس کا طریقہ استعمال سیکھو۔ (ارشادات ومکتوبات حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ ص۳۹) فائدہ:آج سے تقریباً اسی ۸۰سال قبل تیس ہزار روپئے کی کتنی اہمیت ہوگی خود ہی اندازہ لگا لیجئے، نیز اس وقت پیسوں کی ضرورت بھی تھی خصوصاً گاؤں گاؤں مکاتب کھولنے اور ان کی تنخواہوں کا نظم کرنے کے لئے حضرت مولانامحمد الیاس