دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
ہو کہ ایک ( سانس ) اندر جاتا اور ایک باہر آتا ہے، ان دونوں سانسوں کی طرح کبھی انسان جو چاہ رہا ہے اس کے پورا ہونے اور کبھی اس کے اندر کی رکاوٹوں میں ترقی رکھی ہے، جوں جوں اللہ کے ہر حکم میں اللہ کی عظمت پر نظر رکھنے کی عادت کو اتنا بڑھالیا جائے کہ اس کی عظمت کا دھیان اپنے مقاصد کے پورا ہونے اور نہ ہونے کے تاثرات پر غالب ہوجائے، (یعنی ہر حال میں اللہ کے فیصلہ پر راضی اور خوش ہو) اسی میں انسان کا کمال ہے۔ جی کا لگنا اورجی کا گھبرانا پہلا’’بسط ‘‘ ہے اور دوسرا قبض ہے، یہ انسان کے لئے سانس کی طرح لازم ہیں ، درجۂ نبوت تک یہ انسان کے لئے لازمی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزمقاصد کے پورا ہونے اور نہ ہونے پر منحصر نہیں ہیں ، بسا اوقات مقاصد کے پورے ہونے پر طبیعت گھبراتی ہے، اور بسا اوقات مقاصد کے پورے ہونے پرطبیعت کھلی رہتی ہے۔( مکاتیب حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ ص۹۴)تقویٰ کی حقیقت فرمایا: خواہشات نفسانیہ سے رکنے کی طاقت کا نام تقویٰ ہے۔ (ارشادات ومکتوبات حضرت مولانامحمد الیاس صاحب ص۱۰۲) فائدہ:تقویٰ کہتے ہیں ڈرنے اور بچنے کو یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اسی ڈر کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے منکرات ومعاصی اور فواحش سے بچنا، بس اسی کا نام تقویٰ ہے، حق تعالیٰ کا فرمان ہے:وَأمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھیٰ النَّفْسَ عَنِ الْھَویٰ ،فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَأویٰ۔(پ۳۰، نازعات) جوشخص اپنے رب کے پاس ( قیامت میں جوابدہی کے خیال سے) ڈرا اور (اسی ڈر کی وجہ سے) نفس کو(ناجائز) خواہشات سے روکا تو ایسے شخص کا ٹھکانا جنت ہے۔