دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
ہوتا ہے پھر جب بات کی پچ ہوجاتی ہے تو نفسانیت بھی آجاتی ہے، پھر ثواب بھی نہیں ہوتا،حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : وَأمَّا مَن اسْتَغْنیٰ فَأنْتَ لَہٗ تَصَدّیٰ۔وقال: اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَاَنْتُمْ لَھَا کَارِھُوْنَ،جوشخص دین سے بے پروائی کرتا ہے آپ اس کی تو فکر کرتے میں پڑے ہیں ، حالانکہ آپ پر کوئی الزام نہیں کہ وہ نہ سنورے، استغناء کے وصف سے آپ کو اس سے تنفّر دلایا ہے۔ (الافاضات الیومیہ ج۸ص۲۹۷جزء دوم)لوگوں کے الزامات وبہتان تراشی سے بد دل نہ ہویئے، یہ تو سنت انبیاء ہے، استقبال واکرام کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھئے فرمایا:ہمارے کارکن اس بات کو مضبوطی سے یاد رکھیں کہ اگر ان کی دعوت وتبلیغ کہیں قبول نہ کی جائے اور الٹا ان کو برا بھلا کہا جائے، الزامات لگائے جائیں تو وہ مایوس اور ملول نہ ہوں اور ایسے موقع پر یہ یاد کرلیں کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی خاص سنت اور وراثت ہے، راہ خدا میں ذلیل ہونا ہر ایک کو کہاں نصیب ہوتا ہے، اور جہاں ان کا استقبال اعزاز واکرام کیا جائے ان کی دعوت وتبلیغ کی قدر کی جائے اور طلب کے ساتھ ان کی باتیں سنی جائیں تو اس کو اللہ پاک کا فقط انعام سمجھیں اور ہر گز اس کی ناقدری نہ کریں ، ان طالبوں کی خدمت اور تعلیم کو اللہ کے اس احسان کا خاص شکریہ سمجھیں اگرچہ چھوٹے سے چھوٹے طبقہ کے لوگ ہوں ، قرآن پاک کی آیات: عَبَسَ وَتَوَلّیٰ أنْ جَائَ ہُ الأعْمیٰ الخ۔ میں ہم کو یہی سبق دیا گیا ہے، ہاں اس صورت میں اپنے نفس کے فریب سے بھی ڈرتے رہیں ، نفس اس مقبولیت ومطلوبیت