دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
مل جل کر باہمی مشورہ سے کام کرنے کی ضرورت فرمایا:ہمارے اس کام میں اخلاص اور صدق دلی کے ساتھ اجتماعیت اور شوریٰ بینھم کی( یعنی مل جل کر اور باہمی مشورہ سے کام کرنے کی ) بڑی ضرورت ہے، بغیر اس کے بڑا خطرہ ہے۔ (ملفوظات حضرت مولانامحمدالیاس صاحبؒ ص۱۴۴ملفوظ:۱۶۵) فائدہ: مشورہ اگر اپنے ذاتی معاملات میں ہے اور انفرادی طور پر ہے اس میں مشورہ کرنے والا خودمختار ہوتا ہے، مشورہ قبول کرے یا نہ کرے، مختلف شقوں میں جس شق کو چاہے اختیار کرلے،اور اگر مشورہ اجتماعی طور پر انتظامی امور میں ہوتو اگر اس میں مشورہ کا امیر بھی مشورہ سے طے ہوگیا ہو تو اس کے فیصلہ اور اس کی تجویز کوماننا ضروری ہوگا الا یہ کہ وہ ایسی شق کو اختیار کرے جو شریعت کے اورمسئلہ کے خلاف ہو، یا اس میں یقینی ضرر اورنقصان ہو،اوراگر امیر مشورہ طے نہ ہو، یا امیر کے طے ہونے پر یا جس کو امیر طے کیا ہو اس پر سب کا اتفاق نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں کثرت رائے پر فیصلہ کرنے کی شرعاً اجازت ہے، قد صرح بہ التھانویؒ رحمہ اللہ تعالیٰ۔تبلیغی کام کرنے والوں کو اہم ہدایت فرمایا: ہم جس دینی کام کی دعوت دیتے ہیں بظاہر تو یہ بڑا سادہ سا کام ہے، لیکن فی الحقیقت بڑانازک ہے، کیونکہ یہاں مقصود صرف کرنا کرانا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی سعی کرکے اپنی عاجزی کا یقین اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ونصرت پر اعتماد پیدا کرنا ہے، سنت اللہ یہی ہے کہ اگر اللہ کی مدد کے بھروسہ پر اپنی سی کوشش ہم کریں تو اللہ تعالیٰ ہماری کوشش اور حرکت ہی میں اپنی مدد کو شامل کردیتے ہیں ، قرآن مجید کی آیت:وَیَزِدْکُم قُوَّۃً الیٰ قُوَّتِکُم۔میں اسی طرف اشارہ ہے، اپنے کو بالکل بے کار