دعوت و تبلیغ کے اصول و آداب ۔ اور کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہدایات اور اہم نصائح |
عوت وتب |
|
میرے عزیز دوست! بات یہ ہے کہ اس تحریک میں کھڑے ہونے سے جس قدر اللہ جل جلالہ کی رضا اور اس کے قرب اور اس کی نصرت اور اس کا فضل وکرم کھلا اور کثرت سے نظر آتا ہے وہیں مجھے یہ ڈر پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے اس قدر بڑے مہمان کااستقبال اور اکرام وتشریف اس کے مناسب نہ ہوکر( یعنی اس کام کی ناقدری کا نتیجہ) موجبِ حرمان وخسران وبدنصیبی نہ ہو‘‘۔ (حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دینی دعوت ص۱۲۷)محض تقریر کافی نہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے فرمایاجب تک عوام کے سامنے عملی نمونہ نہ ہو، محض منبروں کی تقریرعمل پر پڑنے کے لئے کافی نہیں ہوسکتی، اگر تقریر کے بعد عمل پر پڑنے کی تجویز وتشکیل نہ ہو تو عوام کے اندر ڈھٹائی اور بے ادبی کے لفظ بولنے کی عادت پڑجائے گی۔ (حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دینی دعوت ص۱۲۱) حضرت مولاناسید ابولحسن علی ندویؒ تحریر فرماتے ہیں : مولانا(محمد الیاس صاحبؒ) کے نزدیک اس کی تدبیر یہ تھی کہ مشغول اور کاروباری مسلمانوں کو اور عام اہل شہر کو دین کا ضروری علم حاصل کرنے کے لئے اپنے اوقات کا کچھ حصہ فارغ کرنے کی دعوت دی جائے، اور دین کے لئے مال کی طرح وقت کی زکوٰۃ نکالنے پر آمادہ کیا جائے، ان کو اس ماحول سے نکلنے کی دعوت دی جائے جس کے متعلق ان کا عمر بھر کا تجربہ ہے کہ وہ اس میں رہتے ہوئے اپنی زندگی میں کوئی محسوس تبدیلی پیدا نہ کرسکے۔ (حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دینی دعوت ص۱۱۸)