جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
بیان کر دیا ہے۔ ہدایہ کی پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ ابو الحسن مرغینانیحنفی لکھتے ہیں: وقال فی الجامع الصغیر ما سوی ذلک من الاشربۃ فلا بأس بہ قالوا ہذا الجواب علی ہذا العموم والبیان لا یوجد فی غیرہ وہو نص علی ان ما یتخذ من الحنطۃ والشعیر والعسل والذرۃ حلال عند ابی حنیفۃ ولا یحد شاربہ عندہ وان سکر منہ ولا یقطع طلاق السکران منہ بمنزلۃ النائم ہدایہ اولین ص495، 496، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ امام محمد نے جامع الصغیر میں کہا ہے کہ ان چار شرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور مشروبات کے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (اس قول کی تفصیل کرتے ہوئے) فقہاء نے کہا جس طرح اس کتاب میں عموم ہے وہ (امام محمد کی) اور کسی کتاب میں نہیں ہے اور عبارت میں اس کی تصریح ہے کہ جو شراب گندم، جو، شہد اور جوار سے بنائی جائے وہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلال ہے اور اس کے پینے والے پر حد جاری نہیں ہو گی خواہ اس کو نشہ ہو جائے اور اس نشہ میں اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہو گی جیسا کہ سونے والے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ہماری تحقیقیہ ہے کہ امام محمد نے جامع الصغیر میں جو یہ لکھا: ”وما سوی ذلک من الاشربۃ فلا بأس بہ“ ان چار شرابوں کے ما سوا اس قسم کا عموم مراد نہیں ہے جو اس عبارت کی تخریج کرنے والوں نے سمجھا ہے کہ جو شراب بھی نشہ آور ہو وہ حلال ہے۔ بلکہ ماسوا سے مراد وہ مشروبات ہیں جو نشہ آور نہ ہوں کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک نبیذ اور ہر نشہ آور مشروب حرام ہے، اس کے پینے سے حد لازم آتی ہے اگر وہ نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے طلاق ہو جاتی ہے۔ خود امام محمد نے یہ لکھا ہے کہ امام