جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اختلاف قتل کی سزا میں نہیں ہے، بلکہ اس میں ہے کہ یہ قتل کی سزا حد ہے یا تعزیر؟ در مختار ج3 ص179 میں ہے اسے تعزیراً قتل کیا جائے گا۔ عالمگیری ج2 ص148 میں ہے‘ اسے عبرت ناک سزا دی جائے گی، طحاوی ج2 ص97 میں ہے یہ زنا سے بڑا گناہ ہے: ولٰکن یجب فیہ التعزیر والعقوبۃ البلیغۃ اس پر تعزیراً سخت ترین سزا واجب ہے۔ حافظ ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیفرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کہا: ماں بیٹی وغیرہ سے نکاح جائز ہے وہ کافر، مرتد اور واجب القتل ہے۔ فتح القدیر ج5 ص42، طحاوی ج2 ص96 جواب نمبر4: آپ کے نامور بزرگ نواب نور الحسن خان رحمہ اللہ تعالیفرماتے ہیں کہ زنا کی بیٹی سے نکاح جائز ہے۔ عرف الجادی ص113 سردار اہل حدیث ثناء اﷲ امرتسری فرماتے ہیں کہ دادی کے ساتھ پوتے کا نکاح جائز ہے اس کی حرمت منصوص نہیں۔ اخبارِ اہل حدیث رمضان 1388ھ بحوالہ معین الفقہ ص95 محترم! ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالینے تو نہ اس نکاح کو جائز قرار دیا، نہ اس کی حرمت منصوصہ سے انکار کیا اور نہ اس کی سزا سے انکار کیا، صرف اس سزا کا نام حد کی بجائے تعزیر رکھ دیا تو آپ نے آسمان سر اپر اٹھا لیا، لیکنیہاں تو سب کچھ قرآن و حدیث کے نام پر ہو رہا ہے، اس کے بارے میں بھی کچھ وضاحت فرما دیجیے۔