جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
اعظم ابو حنیفہ نے ایسے شخص کے لیےیہ حد (رجم یا جلد) نہیں فرمائی۔ امام اعظم ابو حنیفہ کے اس مسئلہ کو اگر طالب الرحمن حدیث کے خلاف سمجھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ کوئی ایسی حدیث نقل کریں جس میں ایسے شخص کے لیے حد آئی ہو۔ البتہ احادیث میں قتل کا حکم آیا ہے جس سے امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک و مذہب ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ قتل کرنا یا مال ضبط کرنا زنا کی ان دونوں حدوں سے کوئی حد نہیں ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں ایسے شخص کو جو بھی سزا دی جائے کم ہے لہٰذا حاکم اس کو سخت سے سخت سزا دے فتح القدیر کے اندر تصریح ہے کہ الا ترٰی ان ابا حنیفۃ الزم عقوبۃ باشد ما یکون وانما لم ثبت عقوبۃ ہی الحد فعرف انہ زنا محض عندہ الا ان فیہ شبہۃ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ امام ابوحنیفہ اس کے لیے سخت سے سخت سزا تجویز کرتے ہیں؟ (البتہ نکاح کے سبب) حد ثابت نہیں۔ پس وہ اس کو زنا ہی سمجھتے ہیں مگر نکاح کے سبب اس میں شبہ پیدا ہو گیا۔ اس لیے حد مقرر رجم یا جلد اس سے ساقط ہو گئی اس عبارت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پر کوئی سزا ہی نہیں۔ بلکہ اسے سخت سزا دی جائے گی قتل کی صورت میں۔ جواب نمبر2: طحاوی ج2 ص73 میں ہے سوتیلی ماں سے نکاح کی وجہ سے مرتد ہو گیا، کیونکہ اس نے حرام کو حلال سمجھا، لہٰذا اس پر ارتداد کی سزا نافذ ہو گی اور یہ صرف عقدِ نکاح ہی سے نافذ ہو جائے گی، اس کے لیے مباشرت شرط نہیں اور اگر اس نے یہ نکاح