جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
ہوتی ہے۔اوریہ تینوں ایمان کے اجزاء حقیقیہ ہیں۔ ان پر اعتراض ہوتا ہے کہ اگر تصدیق قلبی، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں کے مجموعہ کا نام ایمان ہے تو جس میںیہ تینوں چیزیں پائی جائیں گی اسی کو مومن کہا جائے گا حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ کسی عمل کے بغیرصرف لا الٰہ الا اﷲ پڑھنے والے کو بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کو کلمہ پڑھنے کے بعد کسی عمل کا موقعہ ہی نہیں ملا اور وہ اس دنیا سے چلے گئے تو اس کے جواب میں ان حضرات کو مجبوراً یہ کہنا پڑا جیسا کہ سردار اہل حدیث مولانا ثناء اﷲ امرتسری نے اس نظریہ والوں کی جانب سے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں اعمال کے بغیر بھی داخلہ جنت ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو فتاوی ثنائیہ جلد اول، ص389 اس سے واضح ہو گیا کہ اصل ایمان تصدیق قلبی ہی ہے۔ پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیکی جانب سے دلائل میں قرآن کریم کی وہ آیات اور وہ صحیح احادیث پیش کی گئی ہیں جن میں ایمان کا محل دل کو بتایا گیا ہے۔ 1۔ قرآن کریم میں ہے: اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ النحل:106 یعنی مضطر آدمی کا دل جب ایمان کے ساتھ مطمئن ہو تو ظاہری طور پر کفر کا کلمہ زبان سے کہنے سے وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ 2۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ