جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے |
|
ہوتا ہے) اور اگر تمہیں اے مسلمانو! مفلسی کا اندیشہ ہو (کیونکہ حج کے موقع پر کافر تاجر بھی سامان لاتے اور اسی تجارت سے روزی کا سامان بنتا ہے، تو اس کی پرواہ نہ کرو کہ اگر وہ حج کے لیے نہ آئیں گے تو تجارت ختم ہو جائے گی جو اقتصادیات کی جان ہے) تو اﷲ تعالیٰ تمہیں غنی فرما دیں گے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہنے جب یہ آیت سنائی تو حج کے اتنے بڑے مجمع میںیہی اعلان فرمایا: الا لا یحج بعد عامنا ہذا مشرک روح المعانی ج10 ص77 کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ معلوم ہوا کہ اس آیت کا مقصد حج وعمرہ سے مشرکین کو روکنا ہے۔ آیت کا یہی مطلب صراحۃً ہدایہ میں مذکور ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: والایۃ محمولۃ علی الحضور استیلاء واستعلاء او طائفتین عراۃ کما کانت عادتہم فی الجاہلیۃ ہدایہ ج4 ص472 یعنی اس آیت سورۃ التوبہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلبہ و بلندی کے ساتھ اتراتے ہوئے حرم میں داخل نہ ہوں یا حج کے لیے ننگے طواف کرنے کے لیے داخل نہ ہوں۔ جیسا کہ جاہلیت میں ان کی عادت تھی۔ دیکھیے احناف نے اس آیت کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کاوہی مطلب بیان کیا جو آیتکے سیاق و سباق سے ظاہر ہے اور جس کا اعلان حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہنے نزول آیت کے وقت مجمع حج میں فرمایا تھا۔