عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مرزائیوں کو جب کتاب اللہ اور سنت رسول اﷲﷺ سے جواب ملتا ہے تو وہ ضد کی بناء پر فلسفہ کی آڑ لیکر فرار کی راہ ڈھونڈتے ہیں اور عموماً یہ دو شبہے پیش کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ:
پہلا شبہ: یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کا اسی جسم کے ساتھ آسمان پر جانا فلسفہ کی رو سے محال ہے جیسا کہ مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ’’نیا اور پرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کرۂ زمہریر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کرچکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مضر صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔ پس اس جسم کا کرۂ ماہتاب یا کرۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۷، خزائن ج۳ ص۱۲۶)
جواب… حضرت عیسیٰ علیہ السلام خودبخود آسمان پر نہیں گئے کہ ان کو اس قسم کی تکالیف پیش آتیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ حکمت بالغہ سے ان کو آسمان پر اٹھالیا اور خدائے تعالیٰ کے اٹھانے میں یہ رکاوٹیں پیش نہیں آسکتیں۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کو تسلیم ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ انسان معہ جسم عنصری آسمان پر چڑھ جائے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۱۹، خزائن ج۲۳ ص۲۲۸)
پس مرزائیوں کا یہ شبہ نہایت لغو اور فضول ہے۔
دوسرا شبہ: یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا قانون قدرت کے برخلاف ہے۔
جواب… مرزائیوں کا یہ شبہ بھی نہایت بودا ہے جو محض قلت تدبر کی وجہ سے کیا جاتا ہے کیونکہ اول تو کوئی آدمی دنیا میں ایسا نہیں۔ جس نے قانون قدرت کا احاطہ کیا ہو، یا کرسکے پس جب قانون قدرت کا احاطہ نہیں ہوسکتا تو اس کے خلاف ہونا کیا معنی؟ دوسرے یہ کہ مرزا قادیانی خود لکھتے ہیں کہ ’’خدا اپنے بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل لیتا ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۹۴، خزائن ج۲۳ ص۱۰۴)
پس جب خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے اپنا قانون بدل لیتا ہے تو پھر اعتراض ہی کیسا؟
الحمد ﷲ! کہ ہم اس کے احسان اور اس کی توفیق سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھایا جانا کتاب اللہ اور سنت رسول اﷲﷺ سے اور مرزاقادیانی کی کتابوں سے ثابت کرچکے اب نزول مسیح کا ثبوت لکھتے ہیں۔ (بعون اﷲ تعالیٰ)