اسی واسطے سید مرحوم کو علماء نے کفر کے فتوے بھی دیئے۔تاہم سید احمد مرحوم کی ہمت پر آفرین ہے کہ مخالفوں کی تردید انہوں نے فرمائی۔ الغرض اعتراضات مخالفین میں سے ایک معجزہ بھی تھا جس کو سید مرحوم نے حقیقی معنے چھوڑ کر مجازی معنے اختیار کر کے ثابت کیا کہ معجزہ نبوت کی کوئی دلیل نہیں منجملہ معجزات سے معجزے عیسیٰ ابن مریم کے بھی تھے۔ چونکہ کل معجزوں کی سید مرحوم نے نفی کی تھی لہٰذا ان کو عیسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کی بھی نفی کرناپڑی۔
ایضاً دو امر نسبت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے زمانہ قدیم سے ہی مختلف فیہ تھے۔ ایک تولد عیسیٰ علیہ السلام،دوم موت۔ان دونوں امروں میں سید مرحوم نے بحث کی۔ گو وہ بحث کوئی نئی نہیں تاہم مسلمانوں اورعیسائیوں کے لئے نئی ہے۔ ہم اس بحث کو تفصیلاً سمجھاتے ہیں۔ مثلاً تولد عیسیٰ علیہ السلام پر زمانہ قدیم سے ہی اختلاف چلا آتا تھا کہ بعض یہود عیسیٰ علیہ السلام کو یوسف بن یعقوب کا بیٹا جانتے تھے اوربعض ناجائز فطرتی سمجھتے تھے۔سید مرحوم نے اس بحث میں یوسف کا بیٹا ہی قرار دیا۔ اس لئے کہ بعض نصاریٰ عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بن باپ پیدا ہونا معجزہ جانتے تھے چونکہ سید مرحوم نے معجزوں کی نفی کا دعویٰ کیاتھالہٰذا بعض یہود کے اعتقاد کو لیکر یوسف کا بیٹا ثابت کیا۔
امر دوم… موت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔اس میں بھی بہت اختلافات تھے۔ بعض یہود اعتقاد رکھتے تھے کہ پہلے عیسیٰ ابن مریم علیہا السلام کو سنگسار کرا کرپھر سولی دیاگیا پھر قتل کیاگیا اور بعض کہتے تھے کہ پہلے سولی دیا گیا پھرقتل کیاگیا۔ نصاریٰ برخلاف ان کے سولی دیاجانا اقرار کرتے تھے مگر پھر زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ جانا معجزہ ابن مریم علیہ السلام کا سمجھتے تھے۔ ا س مقام پر بھی سید مرحوم نے ابطال معجزے کے لئے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا بعد سولی دیئے جانے کے اپنی طبعی موت سے مرنا ثابت کیا۔ گو یہ ثبوت بھی سید مرحوم کا پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا کیونکہ کوئی ثبوت نہیں دے سکے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قبر فلاں جگہ ہے۔تاہم اس اختلاف کو اختیار کر کے اپنے دعوے کو ثابت کیا۔
پس ناظرین کو ثابت ہوگیا ہوگا کہ سید مرحوم نے اپنے وہم میں تفسیر کا بناناثواب سمجھا ہے اور جہاں تک سنا جاتا ہے اوران کی تحریروں سے بھی پایا جاتا ہے یہی ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے تفسیر نیک نیتی اور مخالفوں کی تردید پر تیار کی۔مگر سید مرحوم نے نہ عیسیٰ علیہ السلام اورمریم علیہا السلام پر بہتان لگائے نہ اور کسی پیغمبر اوربزرگ پر۔افسوس مرزا قادیانی پر ہے اول تو دعویٰ مثیل