کی طرف منسوب کرنا صریح افتراء ہے یا سخت جہالت ہے۔
خدا جانے القاء ربانی کس نافہم کے قلم سے نکلی ہے جسے اردو کے محاورہ سے بھی خبر نہیں۔ غالباً حکیم خلیفہ المسیح کی یہ خاص جدت ہے وہ پنجابی ہیں اورپنجابی کو اردو محاورہ کی کیاخبر۔ اور جو یہ نہیں تو مولف القاء ربانی بتائیں کہ یہ ابواحمد کا غلط دعویٰ اوردھوکہ دہی ہے۔ یا آپ کی نافہمی اورہٹ دھرمی ہے۔ آپ کا علم وفضل کیا ہوا۔ صراط مستقیم سے دور جاپڑنے کا یہ لازمہ ہے اور:’’قد طبع علے قلوبھم فھم لایفقھون‘‘کا یہ نتیجہ ہے ۔اپنے حال زار پر رحم فرما کر توبہ استغفار سے کام لیجئے ۔ خدا آپ کی عظمت اوروقار کوقائم کر سکتا ہے:
این درگہہ مادرگہہ ناامیدی نیست
صدبار اگر توبہ شکستی باز آ
ناظرین! یہ بھی معلوم کر یں کہ مؤلف القاء کو اس غلط الزام دینے کی اندرونی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کو یہ خیال ہوا کہ مؤلف فیصلہ کی اس تقریر سے عوام یہ سمجھیں گے کہ مرزاقادیانی کا نہایت عظیم الشان معجزہ غلط ہو گیا اورکوئی دوسرا معجزہ اس کے مثل نہیں ہے۔تو مرزاقادیانی کا دعویٰ گویا بلادلیل رہ گیا۔ اس لئے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اوربھی معجزے اس کے مثل ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ بلادلیل نہیں ہے۔ مگر حق پسند دور بیں حضرات اس پر نظر کریں کہ مثلاً چاول کے پختہ ہونے کی شناخت دیگ کے ایک چاول سے کی جاتی ہے۔جب چاول نکال کر دیکھا اوراس میں خامی پائی گئی تو معلوم ہوا کہ دیگ کے کل چاول کچے ہیں۔ اسی طرح جب مرزاقادیانی کی نہایت عظیم الشان دلیل غلط ہو گئی تو تمام دلائل بیکار اورمخدوش ہوگئے۔ کیونکہ اس دلیل کے غلط ہوجانے سے مرزاقادیانی کا دعویٰ نصوص قرآنی سے غلط ہوگیا۔ اورنہایت ظاہر ہے کہ جس کے دعوے کو نصوص قرآنی غلط بتائیں اوروہ شخص صریح قرآن مجید سے جھوٹا ثابت ہو۔اسے کوئی دلیل سچا نہیں کر سکتی۔ اس کی تفصیل حصہ سوم فیصلہ آسمانی سے معلوم ہو سکتی ہے اور اگر اس کے دیکھنے کے بعد بھی کسی کو تامل رہے گا تو بشرط اطلاع میں تشریح کرنے کو حاضر ہوں۔
اب میںجواب کے پہلے حصے کو ختم کرتا ہوں اوربھائی صاحب (عبدالماجد قادیانی) کے لئے دعا گو ہوں کہ اے میرے کریم میرے بھائی کو صراط مستقیم دکھلا اورصریح کذب کی پیروی سے بچا۔