یعنی تو جس بات کا ارادہ کرے کن فیکون کہہ دیا کر ہوجائے گا۔ جو کچھ توارادہ کرتا ہے۔ وہی میں بھی ارادہ کرتا ہوں۔ مرزا قادیانی کے اس بے تکی اور اس بلندی پروازی اور مجذوبانہ الہام کو عقائد اہل سنت والجماعت اور ارشاد خداوندی یعنی قرآن مجید سے پرکھیے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب حضرت رسول مقبولﷺ سے ارشاد فرماتا ہے: ’’قل ہو اﷲ احد اﷲ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد‘‘ یعنی اے میرے پیار ے نبیﷺ ان لوگوں سے کہہ دے جو مخلوق پرستی میں مبتلا ہیں۔ آفتاب کو بت اور ہر ایسی چیز کو جو فانی ہے۔ اﷲ یا اس کا بیٹا سمجھتے ہیں وہ نہایت غلطی پر ہیں اور پرلے درجہ کے بے وقوف ہیں۔ اﷲ ایک ہی ہے۔ کوئی اس کی توحید اور تفرید میں برابری نہیں کرسکتا۔ اﷲ بے نیاز (کسی کی خواہش کا وہ تابع نہیں اس کا ارادہ کسی کے ارادہ کے ماتحت نہیں) وہ کسی سے جنا اور نہ اس سے کوئی جنا۔ نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے۔ اور جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اﷲ واحد ہے بے نیاز ہے نہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا ہے تو پھران لوگوں سے کہہ دے۔ جو بے جان چیز اور فانی مخلوق کو خدا یا خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں اور اس کے قوی ارادہ میں دوسروں کو شریک سمجھتے ہیں وہ تو بے نیاز ہے۔ غرض کہ کوئی اس کے مثل نہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا‘‘ یعنی اﷲ کی ایسی قوی ہستی ہے کہ اس کا بیٹا ہونا تو بڑی بات ہے۔ جو خدا کے شان شایان نہیں۔ کہ مثالاً بھی کسی کو اپنا بیٹا بنالے۔ قرآن شریف کا یہ بھی ایک زندہ معجزہ ہے کہ ہر زمانہ میں ہر فرقہ باطلہ کی غلط دعویٰ کا کماحقہ رد کردے۔ ’’انت بمنزلۃ توحیدی وتفریدی وظہورک ظہوری‘‘ کا کیا اچھا رد قل ہو اﷲ احد ہے۔ اور ارید ما ترید کا کیا دندان شکن جواب اﷲ الصمد ہے۔ جو اس کی صفت ازلی وابدی ہے اور پھر انت منی وانا منک کا کیا خوب جواب لم یلد ولم یولد ہے۔ نیز انت منی بمنزلۃ ولدی کا کس خوبی سے وما ینبغی للرحمن ان یتخذولدا سے رد ہور ہا ہے۔ اﷲ کی اولاد کے مقابل اور ہم مرتبہ کوئی دوسرا مولود جب ہی ہوسکتا ہے۔ جب حقیقتاً خدا کی کوئی اولاد ہو۔ پھر جب خدا کا کوئی ولد نہیں اور اتخاذولد خدا کے شایان شان نہیں۔ تو انت منی بمنزلۃ ولدی کیونکر خدائی الہام ہوسکتا ہے اور جب ان چاروں الہام کی قرآن مجید سے قطع وبرید ہوگئی تو یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ایسا الہام ہرگز الہام رحمانی نہیں ہوسکتا اور کوئی خدا کے ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
غرض خدا کی نسبت مرزا قادیانی کے جو کچھ خیالات تھے وہ ظاہر ہوگئے۔ اب رسالت کی بابت جو کچھ ان کے خیالات ہیں قوم کے سامنے پیش کرتا ہوں۔