باایںہمہ نہ وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ انہیں کچھ عبرت ہوتی ہے۔
دوئم… ’’وضرب اﷲ مثلا قریۃ کانت امنۃ مطمئنۃ یاتیہا رزقہا رغدامن کل فکفرت بانعم اﷲ فاذا قہا اﷲ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون ولقد جائہم رسول منہم فکذبوہ فاخذہم العذاب وہم ظالمون (النحل: ۱۱۲)‘‘
خدا نے ان کے سمجھانے کو ایک شہر کی مثال بیان کی جو امن واطمینان کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اور ہر جہت سے اس کو رزق اور معیشت کا سامان چلاآتا تھا۔ اس یہ کی آبادی نے خدا کے انعامات کی بے قدری کی اس لئے دفعتہ فاقہ اور خوف کی سنگین سزا میں مبتلا ہوگئے۔ جو یہ عملی نحوست کا نتیجہ تھا۔ نعمت کی بڑی بے قدری یہ تھی کہ ان کی قوم میں سے ان کے پاس پیغمبر آیا لیکن اس کا انکار کردیا اور اس کی صداقت پر یقین نہ لائے۔ آخر کار جو ظالموں کا انجام ہوتا ہے۔ وہی ان کا حشر ہوا اور عذاب نے ان کو تہ وبالا کردیا۔
سوئم… ’’ولایزال الذین کفروا تصیبہم بما صنعوا قارعۃ او تحل قریباً من دارہم حتی یأتی وعد اﷲ ان اﷲ لا یخلف المیعاد ولقد استہزی برسل من قبلک فاملیت للذین کفروا ثم اخذتہم فکیف کان عقاب(الرعد:۳۱)‘‘
کفار پر عملی شامت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی دل ہلا دینے والی آفت آتی رہے گی یا کم سے کم عبرتناک واقعات ان کے شہر سے نزدیک رونما ہوتے رہیں گے۔ تا آنکہ خدا کا حتمی وعدہ نازل ہوگا خدا کے وعدہ میں خلاف نہیں یاد رکھو انبیاء سابقین کے ساتھ استہزاء کیا گیا با اینہمہ مضحکہ اڑانے والوں کو جو کفر کی چال چل رہے تھے میں نے مہلت دی پھر دفعتہ ان کو گرفتار عذاب کردیا۔ تاریخ پڑھو تو تمہیں معلوم ہو کہ میرا عذاب شدت میں کس درجہ کا تھا۔
چہارم… ’’ولقد اہلکنا القرون من قبلکم لما ظلموا وجأتہم البینات وما کانوا لیومنوا کذلک نجزی القوم المجرمین (یونس:۱۳)‘‘
جب نبیوں کے مقابلہ میں آنے والی قوم ظلم اور بے انصافی کی راہ اختیار کرچکی اور معجزات اور نشان دیکھنے کے بعد بھی ان کے نقطہ قسمت میں تبدیلی واقع نہ ہوئی او ر وہ ایمان کی لائن کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور نہ ہوسکتے تھے تو ہم نے ایسے قرون سابقہ کو تباہ کردیا۔ مجرموں کو یونہی پاداش ملا کرتی ہے۔
پنجم… ومن اہل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمہم نحن نعلمہم سنعذبہم مرتین ثم یردون الیٰ عذاب عظیم (التوبہ: ۱۰۱)