M
مبسملاً وحامداً ومحمداً جل وعلا
ومصلیاً ومسلماً محمداً سلم اﷲ علیہ وصلّٰی
الحمدﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ۰امابعد!
وجۂ تحریر
ایک اشتہار بعنوان ’’حقیقت کا اظہار‘‘ نظر سے گزرا اگرچہ ایسی بے سروپا عامیانہ تحریر کے جواب کی نہ مجھے فرصت نہ حقیقتاً اس کی کوئی اشد ضرورت۔ مگر محض بدیں نیت کہ مبادا کوئی سادا لوح اس تحریر کے سبب غلط فہمی کا شکار ہوجائے۔ امر واقعہ کے اظہار کی ضرورت ہوئی۔ مشتہر صاحب وہی بزرگ ہیں جنہوں نے ’’روز ہل سینما‘‘ کے مرزائی جلسے میں یہ بیان فرمایا تھا کہ انہوں نے میرے نام کوئی خط لکھا ہے جس میں مجھ کو مناظرہ کا چیلنج دیا ہے۔ میں بعض ثقہ حضرات کی اس روایت کی بناء پر منتظر تھا کہ وہ خط میرے پاس آئے تو چیلنج دینے والے صاحب پر ان کی خواہش کے مطابق بذریعہ مناظرہ بھی اتمام حجت کردوں۔ مگر آج تک ان کے اس خط کے انتظار ہی انتظار میں رہا۔ اب اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ بھی لوگوں کو دھوکہ دینے اور اپنی بڑائی جتانے کے لئے ایک لغو حرکت تھی۔ جب ان کے متقدیٰ جناب مرزا قادیانی، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کو دعوت مناظرہ دینے اور ان کو مباہلہ پر مجبور کرنے کے باوجود لاہور نہ پہنچے اور بہانہ بازیاں کیں۔ مولوی ثناء اﷲؒ کو پیش گوئیں کی پڑتال کے لئے قادیان بلایا اور منہ نہ دکھایا تو چیلے کے لئے اتنا جھوٹ بولنا کیا دشوار تھا۔ میں نے ’’مارشس‘‘ میں آتے ہی اعلان کردیا تھا کہ جو شخص جس دینی مسئلہ کو سمجھنا چاہے میرے پاس ’’جامع مسجد پورٹ لوئس‘‘ میں دس (۱۰) بجے صبح سے چار (۴) بجے سہ پہر تک کسی وقت آئے اور سمجھ جائے چنانچہ بمنہ تعالیٰ اس عرصے میں روزانہ آنے والوں اور مسائل سمجھنے والوں کا اس قدر ہجوم رہا کہ مجھ کو خواب وخور کی بھی فرصت بدقت ملتی تھی۔ اسی سلسلے میں بہت سے مرزائی بھی آئے اور الحمد اﷲ کہ جو آئے میرے پاس سے نہ صرف لاجواب ہوکر بلکہ اطمینان پاکر ہی گئے ان میں جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دی وہ الحمد اﷲ تائب ہوکر جماعت مسلمین میں شامل ہوئے۔
روشن بھنو نامی ایک شخص نے یہ پیام بھیجا کہ وہ مع اپنے قریبی رشتہ دار اور چھ سات آدمیوں کے مجھ سے مل کر بعض مسائل کو سمجھنا چاہتا ہے اور اگر اس کا اطمینان خاطر ہو جائے تو مرزائیت سے تائب ہونے کے لئے تیار ہے اپنی بعض مصالح کے سبب جامع مسجد میں آنا نہیں