خلاف ۱۸۵۷ء کے وسط میں بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قریب تھا کہ انگریزی راج اس بھٹی میں جل کر راکھ ہو جاتا۔ ملک کے بعض عناصر نے اس جلتی ہوئی آگ کو اپنے خون سے ٹھنڈا کرنے میں انگریز قوم کا ساتھ دیا۔ پنجاب کا سکھ اور ضلع گورداسپور (قصبہ قادیان) کا ایک رئیس مرزاغلام مرتضیٰ اس سلسلہ میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مرزاغلام مرتضیٰ کا بیٹا مرزاغلام احمد قادیانی خود اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ: ’’میں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو گورنر کے دربار میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیس پنجاب میں ہے اور انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام اس کو ملی تھیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۵۹)خلاف ۱۸۵۷ء کے وسط میں بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قریب تھا کہ انگریزی راج اس بھٹی میں جل کر راکھ ہو جاتا۔ ملک کے بعض عناصر نے اس جلتی ہوئی آگ کو اپنے خون سے ٹھنڈا کرنے میں انگریز قوم کا ساتھ دیا۔ پنجاب کا سکھ اور ضلع گورداسپور (قصبہ قادیان) کا ایک رئیس مرزاغلام مرتضیٰ اس سلسلہ میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مرزاغلام مرتضیٰ کا بیٹا مرزاغلام احمد قادیانی خود اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ: ’’میں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو گورنر کے دربار میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیس پنجاب میں ہے اور انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام اس کو ملی تھیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۵۹)