بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
بحمد لللّٰہ!
کہ جانباز پاکٹ بک کی ترتیب کو ایک طرف اگر کالج کے پرنسپل، سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز، طالب علموں نے پسند فرمایا تو دوسری طرف کاروباری طبقے کے علاوہ شہری اور دیہاتی عوام نے بھی اسے وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیا ہے۔
تیسرے ایڈیشن میں نئے عنوان کے ساتھ مزید اور اوراق کا اضافہ کیاگیا ہے۔ دعا کریں کہ پروردگار مجھے ہمت دے کہ میں ہر ایڈیشن کے ساتھ نئے عنوان کے زیر تحت اضافہ کرتا رہوں۔ تاکہ یہ مفید سلسلہ جاری اور ساری رہے۔ جانباز!
حرف اوّل
دنیا میں بغیر قوت کے نہ سلطنت چل سکتی ہے نہ مذہب ترقی کر سکتے ہیں۔ عرب جیسی سنگلاخ زمین پر جہاں گناہ کو بھی ثواب کا درجہ حاصل تھا۔ ایک سعید روح نے جب فاران کی چوٹی سے باطل کو للکارا تو کفر مجتمع ہوگیا۔ عرب کے پہاڑوں نے بھی کفر کا ساتھ دیا۔ لوگ ان راستوں سے پتھروں کی جھولیاں بھرتے اور اس ذات گرامی پر راہ چلتے اس طرح پھینکتے جیسے (نعوذ باﷲ) کسی مجنوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عرب کے پھول کانٹے بن کر محسن کائنات کے پاؤں تلے آکر کفر کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں اور اپنوں نے بیگانوں کا سا روپ بھر لیا ہے۔ آج جو ساتھ تھے کل وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ مکہ کی گلیاں اور بازار نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ یہ وقت عارضی نہیں تھا بلکہ تیرہ برس یہی عمل رہا۔ اس پر آشوب دور میں عبداﷲ کے یتیم اور آمنہ کے لال (جن کا نام ہے محمدؐ جن سے دونوں جگ منور ہوئے صلوٰۃ والسلام) نے آبدیدہ نگاہوں سے آسمان کو دیکھ کر فرمایا ؎
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
اے خالق کائنات تو دیکھ رہا ہے کہ تیری مخلوق تیرے مقابل خالق بن گئی ہے اور تیری جگہ پتھروں کی پوجا ہورہی ہے۔ میں نے تیرہ برس تیرے پیغام کی منادی کی ہے۔ لیکن کام بنتا نظر نہیں آتا۔ اس لئے اگر تو چاہے کہ اس بے آب وگیاہ زمین کے خشک پہاڑوں کی چوٹیوں سے تیرا نام بلند ہو تو پھر عمر بن ہشام (ابوجہل) میرے ساتھ کر اور یا عمر بن خطاب کو میری جھولی میں ڈال دے۔