’’میں خدا کی تیس برس کی متواتر وحی کو کیسے رد کر سکتا ہوں۔ میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں۔ جیسے کہ ان تمام وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)
’’میں آدم ہوں، شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں اور آنحضرتﷺ کے نام کا مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر میں محمد اور احمد ہوں۔‘‘ (حاشیہ حقیقت الوحی ص۷۲، خزائن ج۲۲ ص۷۶)
’’اور میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں… اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے اور اس حالت میں یوں کہہ رہا ہوں کہ ہم ایک نیا نظام اور آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں تو پہلے میں نے آسمان وزمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کی خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۸۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
’’خداتعالیٰ نے مجھے مسیح ابن مریم ٹھہرایا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۷۲ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۷۵)
’’اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا نے باربار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانے میں ظاہر ہونے والا تھا۔ وہ تو ہی ہے۔ آریوں کا بادشاہ۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۲)
’’میں (غلام احمد قادیانی) کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت وسیع اور مصفا مکان ہے۔ اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میں بیٹھا ہے۔ میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ حاکم الحاکمین یعنی رب العالمین ہیں اور میں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں۔ جیسے حاکم کا کوئی رشتہ دار ہوتا ہے۔ میں نے کچھ احکام قضاء وقدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کرانے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں۔ جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا۔ اس وقت میری ایسی حالت ہوئی جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہوا سالہا سال کے بعد ملتا ہے اور قدرتاً اس کا دل بھر آتا ہے۔ میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ یہ حاکم الحاکمین یا فرمایا رب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے اپنے پاس