طرف کھینچتا اور تاریکی تاریکی کو کھینچتی ہے۔‘‘ (ستارہ قیصرہ ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۱۷)
’’سو یہ مسیح موعود جو دنیا میں آیا۔ تیرے ہی وجود کی برکت اور دلی نیک نیتی اور سچی ہمدردی کا ایک نتیجہ ہے۔ خدا نے تیرے عہد سلطنت میں دنیا کے درد مندوں کو یاد کیا اور آسمان سے اپنے مسیح (مرزاقادیانی) کو بھیجا اور وہ تیرے ہی ملک میں اور تیری ہی حدود میں پیدا ہوا۔‘‘
(ستارۂ قیصرہ ص۸، خزائن ج۱۵ ص۱۱۸)
’’اے ملکۂ معظمہ قیصر ہند خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہد حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کر رہا ہے۔ تیری ہمدردی رعایا اور نیک نیتی کی راہوں کو فرشتے صاف کر رہے ہیں۔‘‘
(ستارہ قیصرہ ص۸،۹، خزائن ج۱۵ ص۱۱۹)
’’شریر ہے وہ انسان جو تیرے عہد سلطنت کی قدر نہیں کرتا اور بدذات ہے وہ نفس جو تیرے احسانوں کا شکر گزار نہیں۔ چونکہ یہ مسئلہ تحقیق شدہ ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے ضرورت نہیں ہے کہ میں اپنی زبان کی لفاظی سے اس بات کو ظاہر کروں کہ میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور میرے دل میں خاص طور پر آپ کی محبت اور عظمت ہے۔ ہماری دن رات کی دعائیں آپ کے لئے آب رواں کی طرح جاری ہیں اور ہم نہ سیاست قہری کے نیچے ہو کر آپ کے مطیع ہیں۔ بلکہ آپ کی انواع واقسام کی خوبیوں نے ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ بابرکت قیصرۂ ہند تجھے یہ تیری عظمت اور نیک نامی مبارک ہو۔ خدا کی نگاہیں اس ملک پر ہیں۔ جس پر تیری نگاہیں ہیں۔ خدا کی رحمت کا ہاتھ اس رعایا پر ہے۔ جس پر تیرا ہاتھ ہے۔ تیری ہی پاک نیتوں کی تحریک سے خدا نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ (ستارہ قیصرہ ص۹، خزائن ج۱۵ ص۱۱۹،۱۲۰)
’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزاغلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ پچاس سوار اور گھوڑے باہم پہنچا کر زمانۂ عذر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چھٹیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۴، خزائن ج۱۳ ص ایضاً)