پہلے اﷲ پاک نے ’’لا اقسم بہذا البلد‘‘ کہہ کر ام القریٰ والے بلد امین کی قسم کھائی ہے۔ ’’انت حل بہذا البلد‘‘ کہہ کر حضور کے ایک دوسرے بلد میں مزید اترنے کی بشارت دی گئی ہے۔ جو ’’انت حل‘‘ سے ظاہر ہے۔ ’’ووالد وما ولد‘‘ میں ’’بلد امین‘‘ کو باپ قرار دے کر بعثت ثانی میں دوسرے بلدہ کو اس کا بیٹا قرار دیا گیا ہے۔ جو روئے زمین میں شہر حیدرآباد ہی بلدہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہی اپنے بلدہ کا بیٹا ہے۔ جس میں بعثت ثانی کے لئے حضور سرور عالم نے بھی اس آنے والے موعود کو رجل من امتی اور من ولد ابن ہی کہا ہے اور وہ وجود حضرت مولانا صدیق دیندار چن بسویشور کا ہے۔ جنہوں نے جسمانی ۵۶ اور اخلاقی ۹۶ نشانات کے ساتھ ایک دوسرے بلدہ میں نزول فرمایا۔ ’’ولقد خلقنا الانسان فی کبد‘‘ میں ایک ایسے انسان کو حجت پیش کی جارہی ہے۔ جو اپنے مقصد کے حصول میں انتہائی مشقت اٹھانے سے گریز نہیں کرتا۔ لیکن وہ بقاء اﷲ سے محروم ہے۔ وہ دل گردہ رکھنے کے باوجود روحانیت سے بے بہرہ ہے۔ حضور سرور عالم کے بہ لباس دیگر دوسرے بلدہ میں نزول کو نہیں مانتا اور وہ وجود قاسم رضوی کا ہے۔ ’’ایحسب الانسان ان لن یقدر علیہ احد‘‘ یعنی انسان پر یہ حجت پیش کی گئی ہے۔ وہ کیوں اپنے اقتدار میں اس قدر نازاں ہے۔ کیا اسے یہ خیال نہیں ہوتا کہ شاید کسی اور کو اس پر قدرت حاصل ہو؟ یہ وہ عالم بتایا گیا ہے۔ جب کہ سید قاسم رضوی پوری حیدرآباد ریاست پر حکومت واقتدار کے نشہ میں چور تھا اور یہ سمجھتا کہ اس کی سیاست اور قوت ہمیشہ رہے گی۔ حضرت صدیق دیندار اور ان کے فقراء کو نظر میں بھی نہ لاتا تھا۔ لیکن آگے بتلایا گیا ہے۔ ’’یقول اھلکت مالاً لبدا‘‘ یعنی بالآخر وہ شخص اپنے ہاتھوں اپنا بہت سامان برباد کرے گا۔ قوم کی ساری دولت کو اپنی غلط رہبری سے ہلاکت کے گڑھے میں اتار دے گا۔‘‘ (شمس الضحیٰ ص۸۵)
قرآن کریم کی ایسی دلیرانہ تحریف کہ مطالب قرآنی کو سراسر مطالب نفسانی کے سانچہ میں ڈھال دیا گیا ہے۔
قارئین حضرات یہ نہ بھولیں کہ قرآن چن بسویشور صاحب پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔ ان پر علوم قرآنی واہیں، تبھی تو قرآن کی ایسی تفسیر لکھی ہے کہ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے جھوٹے ظالم نے بھی ایسی تفسیر نہیں کی۔ جو الف تا یا نفسانی خواہشات پر مبنی ہو۔ مگر یاد رہے کہ یہ جھوٹ فریب آخر تابکے ؎