بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
ایک نظر ادھر بھی
اسلام کو دو قسم کے دشمنوںکا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ ایک وہ جو کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور علانیہ اسلام کے خلاف نبردآزما رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو بظاہر اسلام کے مدعی ہوتے ہیں۔ اپنے کو اسلام اور مسلمانوں کا خیرخواہ ظاہر کرتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ مسلمان نہیںہوتے۔ بلکہ کافر ومشرک مسلمان کی شکل میں آآکر اندر اندر سے اسلام کی جڑیں کاٹنے میں مشغول رہتے ہیں۔ پہلی قسم کی بہ نسبت یہ دوسری قسم زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں کفر کے ساتھ نفاق بھی ہوتاہے۔ یہ مارآستین کی طرح ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ کب ڈسے گا۔
ان خفیہ اور علانیہ سازشوں کا مدمقابل اگر اسلام کے سوا کوئی اور مذہب ہوتا تو کب کا اس کا نام ونشان مٹ چکا ہوتا۔ لیکن اسلام کی قیامت تک حفاظت کا چونکہ اﷲتعالیٰ نے ذمہ لے لیا ہے۔ اس لئے اس کے مقابلے میں دشمنان اسلام کی ایک بھی نہیں چلتی۔ جہاں کوئی فتنہ نمودار ہوا وہاں اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنے کسی بندے کو فوراً متوجہ فرمادیتے ہیں کہ تیار ہو جاؤ۔ اس طرف سے کوئی فتنہ سراٹھا رہا ہے اور پھر ناصرین اسلام رجال کی ایک جماعت سینہ سپر ہوکر زبان وقلم بلکہ تیغ وتفنگ اور ہر ممکن قوت سے ان باطل قوتوں کی سرکوبی میں مشغول ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ابتداء اسلام سے آج تک کوئی ایسا فتنہ چھوٹا یا بڑا نہیں آیا۔ جس کا مقابلہ علماء اسلام نے نہ کیا ہو اور فتح وکامرانی نے ہمیشہ ان کے قدم نہ چومے ہوں۔ اب سے تین ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ میرے محسن ومربی حضرت مفتی (رشید احمد لدھیانوی) صاحب مدظلہم نے احقر سے فرمایا کہ دیندار انجمن والوں کے عزائم بڑے خطرناک ہیں۔ جتنی جلدی ہو سکے ان سے متعلق کچھ لکھ کر عوام کو اس فتنہ سے باخبر کرنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت والا نے قلم برداشتہ زیر نظر رسالہ لکھنا شروع کر دیا۔ لیکن احقر کے ذہن میں اس بات کی اتنی اہمیت محسوس نہ ہوئی جو ہونی چاہئے تھی۔ اتفاقاً بندہ ایک کام سے اپنے ایک دوست کاتب کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ دیندار انجمن کے موجودہ نگران اعلیٰ سعید بن وحید آج کل اپنے اس مشن کو دوبارہ منظم کرنے اور نشرواشاعت کے ذریعہ اپنی انجمن کا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کاتب صاحب کو بعض پمفلٹ دے رکھے تھے اور ان کو اپنے مخصوص انداز میں تبلیغ کر کے ایک حد تک متاثر کر دیا تھا اور ایک کتاب ان کو معروف اجرت سے کافی زیادہ پیشگی رقم دے کر کتابت