دین ایک ہے۔ تمہارا نبی بھی ایک ہی ہے اور میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
۶… حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’کیف تختلف ہذہ الامۃ وکتابہا واحد ونبیہا واحد وقبلتہا واحدۃ (کنزالعمال ج۱ ص۳۹۸)‘‘ کہ یہ امت کس طرح مختلف ہو سکتی ہے۔ جب کہ ان کی کتاب ایک ہے اور نبی بھی ایک ہی ہے اور قبلہ بھی ایک ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ جب دوسرا نبی آجائے تو امت بھی اور ہو جاتی ہے۔ پہلے نبی کی امت نہیں رہتی۔ دوسرا نبی ماننا باعث اختلاف ہے۔
پانچویں آیت
۷… ’’قل یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (اعراف:۱۵۸)‘‘ یعنی ان تمام لوگوں کو کہہ دو کہ میں نہ ایک دو کے لئے نہ کسی خاص قوم کے لئے اور نہ ہی کسی خاص ملک کے لئے بلکہ دنیا کے ہر گوشہ کے لئے اور ہر زمانہ کے لئے مبعوث ہوکر آیا ہوں۔
۸… رسول خداﷺ نے خود تشریح فرمادی ہے: ’’انا رسول من ادرکت حیاً ومن یولد بعدی (کنزالعمال ج۱۱ ص۴۰۴، حدیث نمبر۳۱۸۸۵)‘‘ کہ میں ان تمام لوگوں کے لئے رسول ہوں۔ جن کو اپنی زندگی میں پاؤں اور ان کے لئے بھی میں ہی رسول ہوں جو میرے بعد پیدا ہوںگے۔
۹… ترجمہ جو مرزاقادیانی نے کیا ہے۔ ’’یعنی لوگوں کو کہہ دے کہ میں تمام دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ نہ صرف ایک قوم کے لئے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۶۸، خزائن ج۲۳ ص۶۸)
چھٹی آیت
۱۰… ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی (مائدہ:۳)‘‘ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف نے تورات وانجیل کی طرح کسی دوسرے (نبی) کا حوالہ نہیں دیا۔ بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کر دیا اور فرمایا۔ الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ (براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۴، خزائن ج۲۱ ص۵)
اس آیت میں اکمال دین بھی آگیا اور اتمام نعمت بھی اور اس کے بعد رضیت بھی فرمادیا گیا۔ اس لئے آپ خاتم النبیین ہوئے اور آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں۔ جس کو مقام نبوت پر کھڑا کیا جائے۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ آپ کا دین ناقص تھا۔ جس کے لئے دوسرا نبی مبعوث کیا جاوے اور وہ دین کو پورا کرے۔ ۱۱… علامہ ابن کثیر اس آیت کے تحت میں فرماتے ہیں: ’’ہذا اکبر نعم اﷲ