تک کافی لوگ مرید نہ ہو جائیں اور جب تک قوت نہ ہو تب تک اس کو مسلم فرقہ ہی ظاہر کرنا مصلحت تھی۔ تاکہ مسلمان، غیرمسلم نام، یا غیرمانوس خلاف اسلام فرقہ سے بدک نہ جائیں۔ اقتدار اور ترقی حکومت کو خوش کرنے سے جلد مل جاتی ہے۔ اس پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مرزاغلام احمد قادیانی نے حکومت کی خوشامد، چاپلوسی اور مسلمانوں سے آہستہ آہستہ علیحدگی اختیار کی۔ چنانچہ اپنے مریدوں کو خطاب کرتے ہوئے لکھا:
’’تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں۔ بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ بس تم ایسا ہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل ضبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے اور وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور وہ ہر ایک بات میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا فیصلہ مجھ سے چاہتا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
قرآن شریف کا حکم
’’ان الذین فرّقوا دینہم وکانوا شیئاً لست منہم فی شیئاً (الانعام:۱۵۹)‘‘ {بیشک جنہوں نے تفرقہ ڈالا اپنے دین میں اور ہوگئے مختلف گروہ۔ نہیں آپ کو ان سے کوئی سروکار۔}
۲… ’’اعتصموا بحبل اﷲ جمیعاً ولا تفرقوا (آل عمران:۱۰۳)‘‘ {مضبوط تھامے رہو۔ اﷲ کی رسی سب مل کر اور نہ ہو فرقہ فرقہ اور یاد کرو اﷲ کا احسان جو اس نے تم پر کیا۔ جب کہ تم آپس میں دشمن تھے۔ پھر اس نے الفت ڈال دی تمہارے دلوں میں اور تم ہوگئے اس کی (اﷲ) مہربانی سے بھائی بھائی۔}
۳… اور نہ ہو جاؤ ان کی طرح جو ہوگئے۔ فرقہ فرقہ اور باہم اختلاف کرنے لگے۔ بعد اس کے کہ آ چکیں ان کے پاس روشن دلیلیں اور یہی لوگ جنہیں عذاب ہوگا بہت بڑا۔
چنانچہ نقاش پاکستان، مفکر ملت، دانائے راز علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں ؎
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
مرزاغلام احمد قادیانی نے نئی فرقہ بندی کو جاری کر کے صرف الگ فرقہ ہی تیار نہیں کیا۔ بلکہ ہر شعبہ زندگی میں تفریق کی نئی بدعت وجدت اختیار کی اور مسلمانوں کے ہر اسلامی طریق اور مسلمانوں کے مجموعی مفاد کی ہر لحظہ مخالفت کی اور اپنی تفریق پسندی اور غلط کاری کو عین اسلام بتایا اور