لمحہ ٔ فکریہ
ایک مذہبی جماعت کا امام جو اپنے آپ کو خصوصیت سے مقدس اصطلاحوں سے بریکٹ کرتا ہے۔ پھر فضل عمر ہونے کے علاوہ سینکڑوں محدثین سے بڑھ کر بھی اس کا دعویٰ ہے۔ لیکن اس کی یہ یا وہ گوئی کہ خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور میری دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ سراسر دھوکہ اور لاف زنی ہے۔ جگہ کی قلت کے پیش نظر مختصر دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔ تاکہ اس کی دعاؤں کی حقیقت اور مقبولیت کا اندازہ بآسانی لگا سکیں۔ یہ کہ اس کی بدعادات واطوار جیسے قبیحہ فعل کے سیاہ اور بدنما داغ کی وجہ سے اس کی چہیتی بیوی اور اس کا کیا انجام ہوا اور پھر اپنی ہی وحی مقدس کتاب (تذکرہ ص۱۸، طبع۳) پر درج ہے۔
’’کلب یموت علی کلب‘‘ (یعنی وہ کتا اور کتے کی موت مرے گا)کا الہام پورا ہونا لازمی امر تھا۔ پوری تفصیل کے لئے (ملک عزیزالرحمن صاحب) حقیقت پسند پارٹی مدن ولا کرشن نگر لاہور سے رسالہ حاصل کریں۔
۱… اس کی ایک بیوی جس کا نام مریم ہے۔ ہمشیرہ ولی اﷲ شاہ جو اپنے طرز طریق سے حسین وجمیل تھی۔ آتشک جیسی مرض میں مبتلا رہی اور اس کا تمام بدن گل سڑ گیا۔ تمام ظاہری کوششوں کے باوجود کوچ کر گئی۔ جنازے کے وقت بھی جو بدبو اور تعفن تھا۔ خدا کی پناہ اس بدبو کو دور کرنے کے لئے قیمتی سے قیمتی عطر استعمال میں لایا گیا۔ لیکن یہ عطر بھی اس بدبو کو مسخر نہ کر سکا۔
۲… پھر جو زنا کے الزام میں ملوث ہو جس کا چلن سوائے غلاظتوں کے ڈھیروں کے ڈھیر ہو اور مذہب کا مقدس لبادہ کی آڑ میں زنا کیا ہو۔ پھر ایک طویل عرصہ فالج کا شکار رہا ہو۔ ڈاکٹر ڈوئی سے بھی بدتر حالت میں موت واقع ہوئی۔ اس عبرتناک انجام سے ہر احمدی بخوبی واقف ہے۔
’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘
جماعت احمدیہ خالصتاً ایک غیرسیاسی جماعت ہے اور اس نے حکومت کے صوبائی مرکزی ردوبدل میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں لی اور نہ کسی سیاسی معاملہ میں دخل دیا ہے۔ انشاء اﷲ یہ اصول جماعت کا جزو ایمان ہے کہ قانوناً قائم شدہ حکومت کے ساتھ نہ صرف وفاداری کی جائے۔