بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
پیش گفت
فرقہ احمدیہ کے عقائد وحرکات وسکنات اور طریق کار کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہ تھا اور نہ ہے۔ بلکہ اب یہ ملک کے داخلی واندرونی مسائل سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ جس کا پرامن حل جتنی جلدی کر لیا جائے اتنا ہی خود فرقہ احمدیہ کے لئے اور مسلمانوں وملکی داخلی امن کے لئے بہت ضروری واہم ہے۔ اگر اب اس مسئلہ کے لئے آنکھیں بند کی گئیں تو آئندہ اس فرقہ کے طریق کار سے مسلمانوں اور ملکی بہی خواہوں کو خوفناک نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا اور امت مسلمہ کے لئے روحانی اور قومی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ پھر وقت گذر جانے کے بعد اس کی تلافی کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ابھی سے اس کا حل تلاش کر لینا چاہئے۔ ورنہ آئندہ آنے والی نسلیں ہماری کوتاہ نظری وغفلت کا ماتم کرتی رہیں گی۔
یہ فرقہ روئے زمین کے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے اور تمام مسلمانوں سے مذہبی وسیاسی ومجلسی طور پر الگ تھلگ رہتا ہے۔ محض دوسرے لوگوں اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ تاکہ مسلمانوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاکر سیاسی واقتصادی فائدہ اٹھائے۔ فرقہ احمدیہ، گروہ بندی، سیاسی اور تمدنی اعتبار سے پاکستان کے وجود اور ملکی اندرونی امن کے لئے مستقل خطرہ ہے۔ جن پر حکومت اور اصحاب فکر کو پورے غوروفکر سے کام لینا چاہئے۔ خواجہ عبدالحمید بٹ، لودھراں ضلع ملتان!
برطانوی عہد حکومت میں ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں سے جو برا سلوک کیاگیا اوراق تاریخ میں ایک نمایاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب وتمدن رسم ورواج اور مذہب کو ہر حیلے بہانے ختم کرنے کا جتن کیاگیا اور مفاد حکومت اور جمہوریت کی آڑ میں انگریزوں اور انگیز پرستوں نے مسلمانوں کی سیاسی اور مجلسی تنظیم فنا کر کے مسلمانوں کو درماندہ قوم بنادیا اور یہ کوئی عجیب بات نہ تھی۔
برطانوی امپریلزم عرصہ دراز سے ممالک اسلامیہ اور مسلمانوں کو مستقل طور پر اپنا غلام بنائے رکھنا اپنی بقاء کا جزو سمجھتی ہے۔ برطانوی عہد سلطنت ہند میں مسلمانوں کے مکتبوں کو ختم کیاگیا۔ مسلمانوں کی سیاسی ومذہبی تنظیم کو فنا کرنے کے لئے انگریزوں کو مذہبی رجحان رکھنے والے کارکن کی ضرورت تھی۔ جو مسلمانوں کے ذہن سے انگریزوں کے کردہ مظالم کے خلاف نفرت پیدا