دین اسی کا نام ہے۔ قربانی جس کا آئین ہو۔ مسلمانو! اٹھو شرار شمشیر سے ظلمت زار کو چراغاں کر دو۔ نیزوں کی آگ دامن صرصر کو دکھا دو۔ تلوار کے پانی سے ریت کے جنگل کو نہلا دو۔ توحید اور تکبیر کے نعروں سے زمین ہلا دو۔ زماں ہلا دو اور اس کے لئے تمہاری طوفانی موجیں بحراوقیانوس سے تیز ہونی چاہئیں۔ سد سکندری ہو یا دیوار چین، البرز ہو یا ہمالہ، سندھ ہو یا نیل، کوئی تمہاری راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ تمہارے سینوں اور بازوؤں میں خون کی موجیں بیقرار ہونی چاہئیں۔ تمہاری تلواریں میانوں میں تڑپنی چاہئیں۔ تمہارے نیزے دریائے لہو میں تیرنے کے لئے مچلنے چاہئیں۔ تم اپنے اندر شعلوں کا التہاب، بجلی کی لپک اور کڑک پیدا کرو اور خس وخاشاک اور ظلم وعیاشی کے انبار جلا دو۔ کافروں کے جھوٹے خداؤں کو تاخت وتاراج کر دو۔ مرض گناہ میں دم توڑتی دنیا کو آب حیات پلا دو۔ مسلمانو! مایوسی ہمارے دین میں کفر ہے۔ ہمیں جنگ میں فتح ملے تو نعمت، شہادت ملے تو رحمت۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم حق پر چلیں گے تو ایک ساتھ کئی تلواریں ہمارے خلاف اٹھیں گی۔ ہمارے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے گا۔ ہمیں ٹینکوں کے نیچے روند دیا جائے گا۔ لیکن ہم وہ قوم ہیں جو ؎
توپوں کے بھی فیروں کو سمجھتے ہیں اک کھیل
جانباز یہ واروں سے نہ خنجر کے ہٹیں گے
ہتھکڑیاں ہمارا زیور ہوںگی۔ جیل خانے ہماری رہائش گاہیں ہوںگی۔ لیکن ؎
جانباز ہیں ہم مار کے یا مر کے ہٹیں گے
میدان میں آئے ہیں تو کچھ کر کے ہٹیں گے
چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جو حق پر چلتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی گھر نہیں ہوتا۔ کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی۔ ان کے راستے میں کوئی سایہ دار درخت نہیں ہوتا اور وہ عزم راسخ لئے ہوئے اس راستے سے گزر جاتے ہیں اور اپنے پیچھے اپنی یادوں کے چنار چھوڑ جاتے ہیں۔ جو آگ کے شعلوں کی طرح دھرتی سے نکل کر آسمان کی طرف سربلند ہوکر حضور رسالت مآبﷺ کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ ہمیں جام شہادت پینا منظور ہے۔ لیکن ختم نبوت کے غداروں کوختم کر کے دم لیں گے ؎
یوں عشق کی تکمیل مسلمان کریں گے
اس جان دو عالمؐ پہ فدا جان کریں گے