مرزاقادیانی کی پہلی اہلیہ اور بڑے صاحبزادے مرزاسلطان احمد کو محمدی بیگم سے مرزاقادیانی کا رشتہ پسند نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے مرزاقادیانی کی تائید نہیں کی۔ مرزاقادیانی نے اپنی تائید کے لئے ان پر جس طرح دباؤ ڈالا اور غصہ نکالا اس کا حال ملاحظہ ہو:
۷…خانہ بربادی
’’میرا بیٹا سلطان احمد… اور اس کی تائی صاحبہ… اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے… بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیں۔ ورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔… انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہیں دیا… اس لئے میں نہیں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے… آج کی تاریخ کہ دوسری مئی ۱۸۹۱ء ہے۔ عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ظاہر کرتا ہوں کہ… نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوگا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے… اور اگر اس کا بھائی فضل احمد (مرزاقادیانی کا دوسرا لڑکا) اپنی بیوی (مرزااحمد بیگ کی بھانجی) کو اسی دن جو اس کو نکاح کی خبر ہو طلاق نہ دیوے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹تا۲۲۱)
۸…یاس میں آس
’’سچ ہے کہ وہ عورت (محمدی بیگم) میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی۔ مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا۔ جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے۔‘‘
(اخبار الحکم قادیان ج۵ ص۲۹، مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ئ)
۹…پیش گوئی کا انجام
اس شادی کی پیش گوئی کی تکمیل آسمان پر اور تشہیر زمین پر بخوبی ہوچکی تھی اور خود مرزاقادیانی نے اس کو اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دیا تھا۔ مزید برآں اس کی دھن میں گھر برباد ہوا۔ قدیم بیوی کو طلاق ملی۔ جوان بچے عاق ہوئے۔ بہرحال لاکھ ترکیبیں کیں۔ نکاح نہ ہونا تھا، نہ ہوا۔ مرزاقادیانی کو اور قادیانی صاحبان کو بڑی شرمندگی ہوئی اور جھوٹ کھل گیا۔ چنانچہ مرزاقادیانی کا اپنی پیش گوئیوں کے متعلق تصفیہ ملاحظ ہو: ’’بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور محک امتحان ہوسکتا۔‘‘
(مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۱۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۹)