ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
مجھ کو جواب دیتا ہے کہ یہ جو تو نے اظہار کمال کیا اس کا منشا خوش پسندی عجب نہ تھا بلکہ اس میں ایک مصلحت تھی وہ یہ کہ جن لوگوں کے سامنے تو نے اس اپنے کمال کا اظہار کیا ہے تو چونکہ وہ لوگ تیرے معتقد ہیں اور تیرے متعلق ان کو حسن ظن ہے اور تجھ کو نیک سمجھتے ہیں لہٰذا تیری یہ بات سن کر ان کو شوق ہو گا کہ ہم بھی اس فعل میں اس کی اقتداء کریں تو یہ تیرا اظہار کمال سبب ہو جائے گا ایک فعل خیر کی طرف رغبت ہو جانے کا لہٰذا یہ تیرا فعل مذموم نہیں جس کی اصلاح کی ضرورت ہو بلکہ محمود ہے غرض میرا نفس اپنے ہر ایک عیب کو خوبی میں داخل کر دیتا ہے مگر ساتھ ہی مجھ کو یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ کہیں یہ تیرے نفس کا کید نہ ہو کہ اس طرح تیرا نفس تیرے عیوب پر پردہ ڈالنا چاہتا ہو لہٰذا مجھ کو کوئی ایسی علمی بات ارشاد فرمائی جاوے کہ جس سے مجھ کو اپنے ہر فعل کی حقیقت واضح ہو جائے اور میں اپنے نفس کے کید میں نہ آؤں انتہی ـ اس کے بعد حضرت حکیم الامتہ دام ظلہم العالی نے حاضرین سے فرمایا کہ اگر یہ خط کسی مدتق کے پاس جاتا تو اس کے جواب میں وہ یہ کرتا کہ وہ ہر عیب کی حقیقت اور تعریف لکھ کر بھیج دیتا ـ اور یہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس لئے کہ کتابوں کے اندر یہ سب چیزیں موجود ہیں لیکن وہ جواب جب اس طالب کے پاس جاتا اور وہ اس کے اندر غور کرتا تو اس کو حقائق اور تعریفات پر شبہات پیدا ہوتے جیسا کہ ایک طالب علم کو استاد کی تقریر پر شبہات پیش آیا کرتے ہیں پھر وہ ان شبہات کو لکھ کر ان مصلح صاحب کے پاس بھیجتا اور پھر وہ مصلح صاحب ان شبہات کا جواب لکھ کر اس طالب کے پاس بھیجتے تو اس سوال و جواب کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان طالب صاحب میں اور ان کے مرشد میں ایک مناظرہ چھڑ جاتا اور معالجہ جو کہ مقصود تھا اس کا نام و نشان بھی نہ رہتا ـ اس لئے میں نے ان صاحب کے جواب میں ایسا نہیں کیا بلکہ میں نے ان صاحب کو ایک ایسا مختصر جواب لکھا ہے کہ جو لاکھوں روپے کا ہے اور وہ ایسا جواب ہے جو صرف ان ہی صاحب کے لئے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لئے کہ جس کی ایسی ہی حالت ہو جو ان صاحب کی ہے نہایت مفید ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ تم کو چاہئے کہ تم احتمال حقیقت کو بھی حقیقت سمجھو اور اسی کو ایک تحقیق سمجھ کر عمل شروع کر دو ـ پھر ان طالب صاحب کاتب خط کی اس حالت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ بزرگوں نے نفس و شیطان کے ساتھ مناظرہ