ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
الطہارۃ ہوگا یہ ادنی نمونہ ہے اجتہاد کا یہ سن کر غیر مقلد صاحب کو حیرت ہوگئی کہا واقعی حکم تو یہی ہونا چاہیے میری رائے غلط تھی میرا ذہن تو اس حقیقت تک پہنچا ہی نہیں میں کہتا ہوں یہ تو لوگوں کی رسائی ذہن کی حالت ہے اور اس پر دعویٰ ہے اجتہاد کا ۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن و حدیث موجود ہیں پھر کسی چیز کی ضرورت ہی کیا ہے قرآن وحدیث سے خود ہی احکام معلوم کرسکتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ فہم کی بھی ضرورت ہے پھر فرمایا کہ ہم لوگوں میں یہ صفات تو موجود ہی نہیں ۔ تقوی طہارت ۔ خشیت صدق اخلاص ان سے فہم میں نورانیت پیدا ہوتی تھی اور فہم کی ضرورت ظاہر ہے جس سے یہ حقائق منکشف ہوتے تھے اور ان دقائق تک ذہن پہنچ جاتا تھا ایک واقعہ یاد آیا آپ حیرت کریں گے کہ علماء متقدمین میں کسی درجہ تدین اور انصاف تھا ۔ دو عالموں کا غیر مدبوغ چمڑے کی پاکی ناپاکی کے متعلق اختلاف تھا باہم مناظرہ ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو ساکت کردیا مگر اسی جلسہ میں ایک غالب صاحب نے دوسرے صاحب کا جن کو ساکت کردیا تھا قول اختیار کرلیا گو دلائل سے ان کو ساکت کردیا تھا لیکن دوران مناظرہ جن کو ساکت کر دیا مگر اسی جلسھ میں ایک غالب صاحب نے دوسرے صاحب کا جن کو ساکت کردیا تھا قول اختیار کرلیا گو دلائل سے ان کو ساکت کردیا تھا لیکن دوران مناظرہ میں ان کا قول ان کے دل لگ گیا لہذا اپنے قول سے رجوع کرلیا اس زمانہ میں حالت تھی تقوی طہارت کی اب تو تہجد وتسبیح کو سمجھتے ہیں بزرگی حالانکہ بزرگی یہ ہے ۔ اگرچہ شیخ داڑھی بڑھائی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی کیا ٹھکانہ ہے حق پسندی کا باوجود غالب آجانے کے اپنی ہار مان لی اور اپنی شرمندگی کا بھی کچھ خیال نہ کیا ۔ پھر حضرت اقدس مد ظلہم العالی نے خاندان عزیز کے کئی بزرگوں کے تقوی کے حالات کچھ تفصیل سے بیان فرامائے جو غالبا پیشتر ہی ملفوظات میں قلم بند ہوچکے ہوں گے کیونکہ ان حالات وواقعات کو حضرت اقدس اکثر بیان فرماتے رہتے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ اب یہ باتیں کہاں اب محض نقل ہی نقل رہ گئی ہے ۔ نہ ہر کہ سر بیتراشد قلندری داند نہ ہر کہ آئینہ دارد سکندری داند نقل سے کیا ہو تا ہے نقل تو بندر بھی کرلیتا ہے انچہ مردم کیکند بوذینہ ہم مگر کار بوذینہ نیست نجاری