ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
تھی ہر شبہ میں خود حضور ہی سے استفساء ہوسکتا تھا اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا ۔ ہاں غائب کو اجتہاد اس زمانہ میں بھی جائز تھا ۔ کیونکہ ضرورت کے وقت جب استفساء حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہوسکے اجتہاد جائز تھا مثلا سفر میں حضرت عمرو بن العاص کو دوسری کی رات میں احتلام ہو غسل کرتے ہوئے اندیشہ ہلاکت کا ہوا ۔ انہوں نے آیت ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما سے اجتہاد کرکے تیمم کرلیا اور واپسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا آپ نے خلاف میں کچھ نہیں فرمایا ( جمع الفوائد ) غرض صحابہ ہر جگہ احتیاط فرماتے تھے حتی کہ حضور جب کوئی استفسار فرماتے تو بجائے اپنی رائے ظاہر کرنے کے یہ کہہ دیتے کہ اللہ ورسولھ اوعلم یہ حضرات تو حضور کے سامنے اپنے علم کو جہل اور اپنے عمل کو تعطل اپنی رائے کو بالکل ہیچ سمجھتے تھے ۔ ہر امر میں بس حضور کے ارشاد کے منتظر رہتے تھے خود رائے زنی اور اجتہاد نہ کرتے تھے ۔ مگر اب یہ مرض ایسا عام ہوگیا ہے کہ اپنی رائے کو کافی سمجھتے ہیں ۔ اپنے ہی معاملہ میں نہیں بلکہ دوسروں کے معاملہ میں بھی خیر اپنے معاملہ میں رائے زنی کرے تو اختیار ہے کیونکہ اگر اس کا ضرو ہوگا تو خود اسی کو ہوگا لیکن دوسرے کے سپرد کئے ہوئے معاملہ میں تو اسی کی رائے پر عمل کرنا چاہئے اور جہاں اشتباہ ہو وہاں خود اسی سے مکرر پوچھ لینا چاہئے اس ملفوظ کے جو صاحب مخاطب تھے انہوں نے جو غلطی کی تھی اس کی بقدر ضرورت تفصیل بھی اس مقام پر ضروری ہے کیونکہ بغیر اس کے حضرت اقدس کے ارشادات کماحقہ سمجھ ہی میں نہ آسکیں گے واقعہ یہ تھا کہ ایک انگریزی خواں بی ۔ اے پنجابی جو ایک شریف ہندو قوم کا تھا حضرت اقدس کے ہاتھ پر اسلام لایا ۔ اور حضرت اقدس کے فیض صحبت کا ان تو مسلم صاحب پر بہت نمایاں اثر ہوا بلکہ ان کو اسلام لانے کی توفیق بھی حضرت اقدس ہی کی تصانیف نافعہ دیکھ کر ہوئی باخصوص سائنس واسلام جوان کے ثہبات کے زائل ہونے میں بہت معین ہوئی اور ان کو استقدر پسند آئی کہ حضرت اقدس سے اس کے انگریزی ترجمہ کرنے کی اجازت حاصل کرلی ۔ ان کے لئے حضرت اقدس نے کچھ روپیہ اپنی جیب خاص سے شروع میں عطا فرمایا ۔ بعد کو جب انہوں نے اپنے وطن واپس جانے کا ارادہ کیا اس وقت مزید رقم دوسروں کی ان رقوم میں سے جو امور خیر میں صرف کرنے کے لئے حضرت اقدس کے پاس امانت رکھی