ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
ہے کہ وہ صرف اپنے ہی نفس کی دیکھ بھال میں اور حق تعالی کے ذکر و فکر میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں اور عام مخلوق کی کوئی خدمت ان کے سپرد نہیں ہوتی اور بعض اہل اللہ کی یہ شان ہوتی ہے کہ حق تعالی کی طرف سے مخلوق کی کوئی خدمت ان کے سپرد ہو جاتی ہو اب اگر وہ خدمت تکوینی ہوئی تو ایسے شخص کو قطب التکوین کہتے ہیں اور اگر وہ خدمت تشریعی ہوئی تو اس صاحب خدمت کو قطب الاشاد کہتے ہیں ـ اسی طرح وفات کے بعد بھی بزرگوں کے مختلف حالات ہوتے ہیں بعض تو وہاں یعنی عالم برزخ میں پہنچ کر محض مشاہدہ میں مستغرق رہتے ہیں ـ اور دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بعض کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ حضرات مخلوق کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں تو جن بزرگوں کے مزار پر حاضر ہو کر ہیبت اور جلال محسوس ہوتا ہے وہ وہ حضرات ہیں جو مخلوق کی طرف متوجہ نہیں بلکہ مشاہدہ میں مستغرق ہیں ـ اور جن بزرگوں کے مزار پر حاضر ہو کر انس محسوس ہوتا ہے وہ حضرات وہ ہیں کہ مخلوق کی طرف متوجہ ہیں ـ اسی مخلوق کی طرف ان کی توجہ اور شفقت کا یہ اثر ہے کہ ان کے مزار پر بجائے ہیبت کے انس محسوس ہوتا ہے چناچہ یہاں قریب ہی ایک قصبہ ہے جھنجھانہ ـ وہاں میاں حاجی نور محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ـ تو جب اس مزار پر کوئی حاضر ہو تو ایک قسم کا انس محسوس ہوتا ہے اور دوسرا مزار ایک سید صاحب کا ہے جو سید محمود اور امام صاحب کے نام و لقب سے مشہور ہیں ـ یہ صاحب ہندستان سے ایک دور دراز ملک زنجبار کے شہزادے ہیں ان کا واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان کے ایک استاد سفر کرتے کرتے جب یہاں ان اطراف میں پہنچے تو یہاں کے کفار نے ان کو بہت تکلیف پہنچائی ـ اس زمانہ میں خبر رسانی کے لئے نامہ بر کبوتر استعمال کئے جاتے تھے چناچہ انہوں نے جو جو مصائب ان کو پیش آئے تھے وہ سب ایک پرچہ پر لکھ کر اس پرچہ کو ایک کبوتر کے پیر میں باندھ کر اس کبوتر کو اپنے ان شاگرد کے پاس اڑا دیا ـ جس وقت وہ کبوتر ان شہزادے کے پاس پہنچتا ہے تو اس وقت ان کی شادی کی تقریب ہو رہی تھی اور ان کو دولھا کا جوڑا پہنایا جا رہا تھا ـ جس وقت انہوں نے اپنے استاد کا یہ خط پڑھا بے تاب ہو گئے اور فورا اپنی والدہ سے جہاد کی اجازت چاہی اور عرض کیا کہ بس اب تو ہم حوروں ہی سے شادی کریں گے چناچہ شادی کی تمام تقریبات کو ترک کر کے فوج کو لے کر یہاں اپنے استاد کی مدد کو پہنچے اور یہاں آ کر ان کفار سے