بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
ظلم وطغیان کا جواب
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ : وَلَا تُجَادِلُوْا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ إِلَّاالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ (یعنی اہل کتاب سے اسی طریقے پر جھگڑو جو بہتر ہو، مگر ان میں جو بے انصاف ہیں ) إِلَّاالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا پر علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں : أی حادوا عن الطریق وعموا عن واضح المحجۃ وعاندوا وکابروا فحینئذٍ ینتقل من الجدال إلی الجلاد، (ج: ۴،ص: ۶۶۲) یعنی وہ لوگ جو جادۂ حق سے انحراف کریں ، اور واضح دلائل کے ہوتے ہوئے اندھے بن جائیں ،اور عناد ومکابرہ میں گرفتار ہوجائیں ، ان کے حق میں جدال احسن سے جلاد ( ضرب وقتل ) کی طرف منتقل ہواجاسکتا ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
’’ مشرکوں کا دین جڑ سے غلط ہے ، اور اہل کتاب کادین اصل سے سچا تھا ، تو ان سے اس طرح مت جھگڑوکہ جڑ سے ان کی بات کاٹنے لگو، بلکہ نرمی ، متانت ،خیر خواہی اورصبر وتحمل سے واجبی بات سمجھاؤ، البتہ جو ان میں صریح بے انصافی عناد اور ہٹ دھرمی پر تل جائے، اس کے ساتھ مناسب سختی کا برتاؤ کرسکتے ہو، آگے چل کر ایسوں کو سزا دینی ہے۔ ( ص:۵۲۱، العنکبوت)
یہ آیت تمام اہل ایمان کو ہدایت کرتی ہے کہ کسی مسئلہ میں اختلاف کرنے والوں کے ساتھ ، خواہ ان کا اختلاف قطعی طور پر حق وصداقت کے خلاف ہو، بحث ومناظرہ اور گفتگو اور جدال کا وہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو بہتر ہو، جس میں مخاطب کی دل آزاری نہ ہو، لب ولہجہ سخت نہ ہو، بات ایسی ہو جو دل میں اترجائے ، لیکن یہ ہدایت اسی وقت تک ہے جب تک مخاطب کی جانب سے ضد وعناد ، ہٹ دھرمی اور بے جا بحث وجدال کا ظہور نہ ہو، وہ خود بھی شرافت کا دامن کسی درجہ میں تھامے ہوئے ہو، لیکن اگر وہ بے انصافی کی راہ اختیار کرتا