علیہ الرحمہ سابق ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے اپنے ’’دلی اور اس کے اطراف ‘‘کے سفر نامہ میں درج کی ہے ، جو پہلے ’’ارمغان احباب‘‘ کے نام سے، اور پھر ’’دلی اور اس کے اطراف ‘‘کے نام سے طبع ہوا۔ اس میں پوری تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مدارس دینیہ کے انتظام وبقاء کا شرعی ضابطہ یہی ہے ، اس کو دنیاوی جمہوریت کے طرز پر لے جانا، اس کو فاسد کرنا ہے ، مدارس کے اربابِ شوریٰ کو ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے۔
اللھم الھمنا مراشد امورنا واعذنا من شرور انفسنا
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
دار العلوم دیوبند کامنصبِ اہتمام
دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ ایسا محسوس ہوا،جیسے مسلمانوں کی یہ متاعِ عزیز اور ملت کا یہ سرمایۂ علم ودین آفات کی آندھیوں کی زد میں آگیا ہے ، ہواؤں کا رخ اس انداز پر چلنے لگ گیا تھا ، کہ اہل قلوب کویہ اندیشہ ہوچلاتھاکہ خدا نخواستہ اس خرمن علم ودین کو دشمنوں کی آتشیں نگاہِ بد تو نہیں لگ گئی؟ کشمکش کی ایک لہر ملت اسلامیہ میں چلنے لگی تھی ،اور اخبارات اسے مزید خوفناک اور بھیانک بناتے جارہے تھے ، جو لوگ اس کشمکش کی زہرناکی اور اس کے نتائج کومحسوس کررہے تھے وہ دم بخود تھے ، وہ حیران تھے کہ کچھ بولیں یا خاموشی اختیار کریں ؟ کچھ بولیں تو اسے میڈیا کس شکل میں پھیلائے ؟ خود دار العلوم دیوبند کے اربابِ بست وکشاد کس مشکل اور پیچیدگی میں پڑیں ؟ اور اگر خاموشی اختیار کریں تو فتنہ کس کس رنگ میں ظاہر ہو اور بزرگوں کی