بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
مصائب کا اصل سرچشمہ؟
نادرشاہ نے دلی میں قتل عام کاحکم دیدیاتھا، ہر گلی کوچے میں انسانی لاشیں بکھری پڑی تھیں ، کسی کو پناہ نہ ملتی تھی ، ہر ایک گردن پر خونخوار تلوار کھنچی ہوئی تھی ، سب سراسیمہ تھے ، سب حیران تھے کہ یہ کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب ملنے سے پہلے گردن پر تلوار چل چکی ہوتی ۔ جب نادرشاہ کی خون آشام تلوار آسودہ ہوچکی تو اس نے یہ سلسلہ بند کرایا ، اب بچے کھچے لوگوں کے حواس بجا ہونے شروع ہوئے، تو کسی نے کسی بزرگ سے دریافت کیا کہ حضرت! یہ سب کیا ہوا؟ انھوں نے ایک جملے میں جواب دیا، وہ جملہ تاریخی جملہ بن گیا ، واقعیت اور صداقت پر مبنی ! اپنے اندر درس وموعظت کی ایک دنیا لئے ہوئے ، انھوں نے کہا:
شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت
نہ نادر کچھ ہے نہ نادر کا حکم کوئی چیز ہے ، نادر کیا ہے؟ جیسے سب انسان ہیں قوانینِ قدرت میں جکڑا ہوا وہ بھی ایک انسان ہے ، لیکن ہماری بد اعمالیاں ہیں جنھوں نے پروردگار عالم کو ناراض کیا ، وہی بداعمالیاں نادر کی صورت میں مجسم ہوکر ہم پر قہروعذاب کاکوڑا بن کر برس گئی ہیں ۔
انسان آفات ومصائب کا سرچشمہ اپنی ذات سے ، اپنے احوال واعمال سے باہر تلاش کرتا ہے اور اسے اپنی ذات سے باہر مصائب کاچشمہ ابلتا ہوا دکھائی دے جاتا ہے، وہ اسی خارجی سرچشمہ پر ، اس کے روکنے پر ، اس کے پاٹنے پر اپنی کوشش صرف کرنے لگتا ہے ، لیکن ایک سوراخ بند کرتا ہے تو دوسرے سوراخ سے دھواں نکلنے لگتا ہے، ایک طرف دباتا ہے تو دوسری طرف ابھار پیدا ہوتا ہے۔
یہ ایک طرفہ محنت کامیاب نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہونے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے