شہادت کا درجہ عطا فرمائیں ۔ یہ مقصد بحمد اﷲ طالبان کو حاصل ہوا، اور یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ کون لوگ ایمان میں راسخ ہیں اور کون لوگ کفر کی طاقت سے خوفزدہ اور لرزہ براندام ہیں ، اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر اہل ایمان کو زخم یا شہادت سے دوچار ہونا پڑے تو یہ اس لئے نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سے ناراض ہیں یااﷲ تعالیٰ ان سے بے تعلق ہیں ، اﷲ تعالیٰ کی محبت سے تو ظالم محروم ہیں ۔ پس اہل ایمان کو ظاہری اعتبار سے برباد کرنے والے یہ نہ سمجھیں ،اور دوسرے تماشا دیکھنے والے بھی یہ خیال دل میں نہ لائیں کہ اﷲ تعالیٰ ظالموں سے محبت رکھتے ہیں ، حاشا وکلا خدا کو ان ظالموں سے قطعاً محبت نہیں ہے ، یہ سزا وعذاب کے مستحق ہیں ۔
سزا کہاں ہوگی؟
لیکن اہل ایمان اس عجلت میں نہ پڑیں کہ ظالموں کو اس دنیا میں ہی سزا مل جائے ، سزا وجزا کی جگہ اصلاً یہ دنیا ہے ہی نہیں ، یہ تو عمل اور امتحان کی جگہ ہے ، سزا ملے گی اور ضرور ملے گی۔ شہداء اور مظلومین کو ثواب ملے گا اور ضرور ملے گا ، مگر اس کی جگہ یہ دنیا نہیں آخرت ہے ، اگر یہ فیصلہ مقدر اور متعین نہ ہوچکا ہوتاتو دنیا دیکھتی کہ سزا کا کوڑا یہیں برس رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی اَجَلٍ مُسَمًّی لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ (سورہ شوریٰ: ۱۴) اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات متعین نہ ہوچکی ہوتی تو یقینا ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ یعنی عقوبت وسزا کا معاملہ قیامت کے اوپر موقوف نہ ہوچکا ہوتا تو یہیں عذاب آجاتا، اس لئے دنیا میں عذاب نہ آنے سے اہل ایمان کو متاثر نہ ہونا چاہئے ، ان کے عذاب کا وقت مقرر ہے ، اس وقت کھلی آنکھوں دیکھ لیں گے کہ ظلم کرنے والے کس درجہ عذاب شدید میں مبتلا ہیں ۔ بس انتظار چاہئے ۔
کیا دعائیں قبول نہیں ہوئیں ؟
امریکہ کے حالیہ حملے کے وقت تمام عالم اسلام کے مسلمانوں نے بہت دعائیں کیں مگر تب بھی طالبان بکھر گئے ، دعا رائیگاں گئی؟ یہ سوال بہتوں کو پریشان کئے ہوئے ہے ، جواب یہ ہے کہ اہل ایمان کی دعا کبھی رائیگاں نہیں ہوتی ، لیکن قبولیت کے لئے جلد بازی نہیں