باتیں ظاہر ہوتی ہیں تو افسوس ہوتا ہے ، ان مدارس کی مدد کرو ، خدا نخواستہ اگر اس ملک میں یہ نہ رہے تو نہ آپ کے ایمان کی خیر ہے نہ جان کی !
٭٭٭٭٭
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
ایک بات سننے میں آئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ اخبار’’ آواز ملک ‘‘ میں یہ بات اٹھائی گئی ہے کہ حجاج کرام کے لئے ہوائی جہاز کے کرائے میں حکومت جو رعایت دیتی ہے، یعنی ان کے لئے ہوائی جہاز کے اصل کرائے سے بہت کم ،غالباً آدھے سے کچھ زیادہ کرایہ متعین کیا جاتا ہے ، اور باقی کرایہ کی رقم گورنمنٹ اپنے خزانے سے ادا کرتی ہے ، جس کو اصطلاح میں ’’ سبسڈی ‘‘ کہتے ہیں ۔ غالباً سعودیہ عربیہ کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ درست نہیں ہے، حاجی پر جو حج فرض ہوتا ہے ،ا پنی رقم پر فرض ہوتا ہے ، اس میں گورنمنٹ کی دی ہوئی رقم کا دخل نہیں ہونا چاہئے،اور حج ایک عبادت کا سفر ہے ، گورنمنٹ کا مال نہیں شامل کرنا چاہئے ، معلوم نہیں اس کی آمدنی حرام ہے یا حلال؟ اس سوال کو معلوم کرکے بس یہ کیفیت ہے کہ ؎
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے
ایک طرف تو یہی سوال اٹھاکر علماء کو للکارنے والے ، علماء پر اتہام رکھتے ہیں کہ گورنمنٹ طرح طرح سے اپنے عوام کی مدد کرتی ہے ، ان مولویوں کو خبر ہی نہیں ہوتی ورنہ حکومت کی مدد سے مدارس اور مقابر وغیرہ کے بہت سے کام ہوسکتے ہیں ، وہاں انھیں خیال نہیں ہوتا کہ وہ رقم حلال ہے یا حرام ، اور دوسری طرف ایک ایسی مدد جس کی عام طور پر بیشتر حجاج کو خبر بھی نہیں ہوتی ، اس کے جائز وناجائز ہونے کو آسمان پر اٹھارہے ہیں ۔
ایک حاجی کو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی جہاز کا کرایہ اتنا ہے ، اسے عموماً خبر نہیں ہوتی کہ اصل کرایہ کتنا ہے اور اس میں سے کتنا گورنمنٹ ادا کرتی ہے ، بات یہ ہے کہ