بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
تماشائے عبرت
پچھلے دنوں دو عجیب تماشے دیکھنے میں آئے ، حیرت کے تماشے !عبرت کے تماشے! یہ خاکسار راقم الحروف ریڈیو اور اخبارات سے کچھ خاص اشتغال نہیں رکھتا ، ریڈیو تو کبھی نہیں سنتا ، البتہ اخبار کبھی کبھی نظر سے گزرتا ہے ، نہیں ملتا ، تو اس کی طلب نہیں ہوتی ، مل جاتا ہے ، تو سرسری نظر ڈالنے سے انکار نہیں ، چند ماہ پہلے ہفتوں اخبار دیکھنے کی نوبت نہیں آئی ، ایک روز ایک دوست نے فون پر خبر دی کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ فلاں اخبار میں شائع ہوا ہے کہ اشاعت دین وتبلیغ اسلام کے لئے ٹی ۔ وی کا استعمال جائز نہیں ، اس پر اس اخبار میں کچھ علماء کی طرف سے خوب لے دے ہورہی ہے ، مجھے حیرت ہوئی ٹی ۔ وی کے استعمال کا عدم جواز تو بدیہی ہے ، شریعت مطہرہ کے اصول کا جو معمولی حرف شناس بھی ہوگا وہ بھی جانتا ہے کہ فحاشی ، عریانی ، بے راہ روی کا یہ ڈبہ اشاعت اسلام تو بڑی مقدس چیز ہے ، کسی معمولی مقصد کیلئے بھی اس کا استعمال جائز نہ ہوگا ، کوئی گندگی پھیل جائے ، تو وہ پاک نہ ہوگی ۔ لیکن اﷲ جانے اصحابِ علم کہلانے والے ایک طبقہ نے کہاں سے ، کون سا لخلخہ سونگھ لیا ہے کہ وہ دن کے اُجالے میں اندھیر مچارہے ہیں ۔ خاکسار نے اسی وقت اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون لکھا ، جو ماہنامہ ضیاء الاسلام شمارہ اکتوبر میں آغازِ سخن کے ذیل میں شائع ہوا ۔
اسی دوران ایک دوسرا تماشا بھی اخبار کے صفحوں میں ؎
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
کا مصداق بنا ہوا چل رہا تھا ۔ اس وقت امریکہ میں صدارتی الیکشن کی تیاریاں شروع ہونے والی تھیں ، یا شروع ہوگئی تھیں ، معلوم ہوا کہ وہاں کے صدر نے ہندوستان سے