بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
تقریب
میں طبعاً مدرّس اور معلّم ہوں ، مطالعۂ کتب میرا شوق ہے ، طلبہ کو پڑھانا میرا ذوق ہے ،ا طاعت وسپردگی میری طبیعت ہے ، ذکر الٰہی میری غذا ہے ، فکر آخرت میری سوچ ہے۔ طبیعت اسی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہے ، اس دائرے میں قرطاس وقلم کا کوئی خانہ نہیں ہے ، سچ پوچھئے تو تحریر وانشاء سے مجھے مناسبت کم ہے ، یا شاید نہیں ہے ، نہ لکھوں تو لکھنے کا کوئی تقاضا نہیں ہوتا ۔ لکھتا ہوں تو طبیعت میں روانی نہیں ہوتی ، بس وہ جذبۂ اطاعت ہے جس کے دباؤ میں کچھ لکھ لیتا ہوں ، کوئی وقتی شدید تقاضا ہوا، یا دوستوں اور بزرگوں میں سے کسی کا حکم ہوا ، یا کسی اپنے طالب علم کی فرمائش ہوئی ، تو قلم کو جنبش ہوتی ہے ، لیکن ان تقاضوں ، ان احکام اور ان فرمائشوں کے نتیجے میں جو کچھ لکھا گیا ہے ، اس کی مقدار اتنی ہوگئی ہے کہ جاننے والوں اور پڑھنے والوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ یہ خاکسار بھی شاید مرتب ومصنف اور انشاء پرداز ہے۔ درحقیقت اس غلط فہمی کا بڑا سبب عزیز محترم مولانا حافظ ضیاء الحق خیرآبادی سلّمہ کی محبت اور کوشش وکاوش ہے ، کہ میں اپنی تحریروں کو جہاں تہاں چھوڑ کر بے پرواہوجاتاتھا ، جب سے عزیز موصوف کی رفاقت ہوئی ہے ،انھوں نے میرے حرف حرف کو جمع اور محفوظ کرنے کا اہتمام کیا، اور اس طرح مضامین کی اشاعت وطباعت کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس اشاعت وطباعت کا آغاز مجلہ’’المآثر‘‘ سے شروع ہوا۔ محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی صاحب علیہ الرحمہ کی وفات (رمضان ۱۴۱۲ھ) کے بعد ان کی یادگار میں ان کے صاحبزادۂ گرامی قدر حضرت مولانا رشید احمد الاعظمی مدظلہ کے حکم سے سہ