بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
مدارس اسلامیہ : دورِ حاضر کی نعمت عظمیٰ
ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کے زوال کے بعد،نہ صرف مسلمانوں کے خلاف بلکہ خود مذہب اسلام کے خلاف فتنوں کی یلغار شروع ہوگئی ، اس وقت اس ملک میں سمندر پار کی ایک اجنبی سفید فام اور سیاہ قلب قوم تجارت کی راہ سے سیاست میں قدم جمارہی تھی ، یہ قوم وہ تھی جس نے چند صدی پیشتر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا خونیں معرکہ چھیڑرکھاتھا ، اور آخر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے فولادی ہاتھوں سے اس نے وہ شکست کھائی تھی ، کہ اس کا زخم ناسور بن کر صدیوں اس قوم کی تکلیف اور دشمنی کا سبب بنارہا ۔ اس قوم کو اسلام سے اور مسلمانوں سے گہری عداوت تھی ، یہ قوم جب ہندوستان کے ساحل پر اتری تو یہاں اس کوانھیں مسلمانوں سے سابقہ پڑا جن کے ہاتھوں اسے صلیبی جنگوں میں تاریخی شکست ہوئی تھی ، اس نے اپنی دشمنی کا لاوا نکالنے کے لئے ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا ، بلکہ مکر وفن ، سازش اور دسیسہ کاریوں کے ہتھیار آزمائے، حکومت سے تجارت کی اجازت لی ، ایک تجارتی کمپنی بنائی اور پھر آہستہ آہستہ اپنی فوجوں کو یہاں اتارنا شروع کیا ، اس قوم کی دراندازی کے بعد اس ملک میں سیاسی ، تعلیمی ، مذہبی ، اخلاقی اور معاشی اتل پتھل شروع ہوئی ، اس کا ہر قدم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھتا تھا ، کبھی برنگ ہمدردی، کبھی برنگ سازش وفریب! مگر رخ یہ تھا کہ مسلمانوں کو پست وذلیل بھی کیا جائے اور اسلام کا اعتماد ان کے دلوں سے نکال بھی دیا جائے ۔ اس کے لئے علم وہنر کے نئے نئے زاوئے، نئے نئے انداز پیش کئے ، اور اس کے لئے صلیبی پادریوں کی ٹیمیں بھی اس نے ملک کے طول